میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے فرانس کو اپنی سوچوں اور احساسات پر حاوی پایا ہے۔ میں جب بھی فرانس کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایک پر امن، خوشحال، ترقی یافتہ، مہذب، مستحکم، قانون کی پاسداری کا حامل، پھولوں سے معطر، خوشبوؤں سے مہکا، روشنیوں سے سجا، خوبصورت لوگوں کا مسکن اور صاف ستھرا ملک ہونے کا تاثر چاروں جانب سے میرے دل و دماغ کا احاطہ کر لیتا ہے۔ کبھی بھی زندگی میں فرانس نہیں گیا لیکن اس قدر ذہنی اور روحانی مانوسیت ہے کہ مجھے اپنا دیس لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا چشم تصور سے فرانس کا چپہ چپہ چھان مارا ہے جس سے اب مجھے بالکل ایک اجنبی ملک نہیں لگ رہا۔
فرانس سیاحت، ثقافت، سیاست، معیشت، سائنس و ٹیکنالوجی اور بین الاقوامیت کا عالمی مرکز ہے۔ خوشی، خوشبو اور خاموشی وہاں کی فضاؤں میں ہر طرف رچی بسی ہیں۔ فرانس آزادی، راحت اور متوقع (معیاری) طرزِ زندگی کے اعتبار سے دنیا کا جاذب ترین مقام ہے۔ فرانس میں وہ سب کچھ ہے جو انسانی قلوب اور اذہان کو اپنی جانب پوری طرح پھیر سکتا ہے۔ آفاقی شہرت کے حامل سابق فرانسیسی رہنما چارلس ڈیگال کہا کرتے تھے کہ "ہر فرد دو ممالک کا باشندہ ہوتا ہے ایک اپنے ملک کا اور دوسرا فرانس کا”۔ یہ بات میرے حوالے سے بھی درست ہے۔ میں اپنے آپ کو تین ملکوں کا باشندہ خیال کر رہا ہوں پاکستان، ترکی اور فرانس کا۔
فرانس اپنی تاریخ میں بے شمار جنگوں، چیلنجوں اور اتار چڑھاؤ والے حالات سے گزر کر موجودہ امن، اتحاد، ترقی اور آزادی کے دور میں پہنچا ہے۔ فرانس مختلف سیاسی، نسلی اور مذہبی لڑائیوں کے طویل اور تکلیف دہ ادوار سے گزرا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنی حالیہ تاریخ میں فرانس امن، اتحاد اور مفاہمت کی جانب اٹھنے والے ہر قدم کا ہم قدم ہوتا نظر آرہا ہے۔ فرانس یورپی یونین، نیٹو اور اقوامِ متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا بانی اور سرگرم رکن ہے۔
ایک قوم کا ترقی یافتہ ہونا، متحد ہونا، منظم ہونا، خوشحالی اور اثر پزیری میں آگے ہونا، تہذیبی طور پر غالب اور اثر انداز ہونا، معاشی اور اقتصادی طور پر آسودہ اور مضبوط ہونا اس حقیقت کی علامت ہے کہ اس قوم میں کچھ نہ کچھ انسانی، علمی، اخلاقی، تاریخی اور اجتماعی خوبیاں ایسی پائی جاتی ہیں جو اس کو عام سطح سے بلند تر سطح پر اٹھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ عیوب کی وجہ سے قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو اسی طرح اعلیٰ خوبیوں کی بدولت ترقی پا لیتی ہیں۔ اگر اس تناظر میں قوموں کے حال احوال کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو واضح ہونے میں دیر نہیں لگتی کہ کچھ خوبیاں اور اوصاف قوموں کے اٹھانے اور کچھ گرانے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔
فرانس صدیوں سے سائنسی، ادبی اور سماجی علوم، تہذیب و تمدن اور مسرت و ثقافت کا عالمی مرکز رہا ہے۔ فرانس ان ممالک میں سرفہرت ہے جہاں ادیب، سائنسدان، لکھاری اور پروفیسروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جہاں کتابیں کثرت سے لکھی، چھاپی اور پڑھی جاتی ہیں۔ جہاں لائبریریاں ہر وقت بھری ہوتی ہیں۔ جہاں مطالعہ لوگوں کے لیے ایک مرغوب چیز ہے۔ جہاں تعلیم کا شرح وسیع اور معیار بلند ترین لیول پر ہے۔
امن، علم، اتحاد، نظم و ضبط، قانون کی پاسداری، میرٹ، احساس فرض، صبر و تحمل، محنت و مشقت، جنگوں سے ممکنہ حد تک اجتناب، مجموعی ماحول کو محفوظ اور خوشگوار بنانے پر توجہ، ڈائیلاگ اور مذاکرات ایسی خوبیاں ہیں جو قومی اور اجتماعی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ میں فرانس کے بارے میں روز سوچتا ہوں، پڑھتا ہوں اور تبادلہ خیال کرتا ہوں۔ میں نے چشم تصور سے وہاں پہ بہت کچھ دیکھا ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے فرانس میں مذکورہ بالا خوبیاں بڑے پیمانے پر موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ فرانس دنیا میں ترقی و خوشحالی اور امن و سکون کے اعتبار سے "خوابوں کی سرزمین” کی حیثیت رکھتا ہے۔
فرانس مغربی یورپ کا ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے۔ اس ملک کے کوکھ سے ایک بڑے انقلاب، ایک بڑی تہذیب اور عالمگیر سیاحت نے جنم لیا ہے۔ فرانس حقیقی معنوں میں ایک طاقتور، موثر اور فیصلہ کن حیثیت کے حامل ملک ہے۔ فرانس کی عملداری بحر و بر دونوں پر قائم ہے۔ ایک طرف یورپ کا سب سے بڑا جغرافیائی ملک ہے تو دوسری طرف بحیرہ روم، بحیرہ شمال، بحر اوقیانوس، بحر الکاہل اور بحر ہند میں کئی بڑے جزائر کا مالک بھی ہے۔
فرانس کا رقبہ تقریباً ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جبکہ ابادی ساڑھے سات کروڑ کی لگ بھگ۔ سیاسی نظام کے طور پر صدارتی جمہوریہ قائم ہے۔ دارالحکومت پیرس ہے جو ملک کا اقتصادی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ اس کے علاوہ مارسئی، لیوں، لیل، نولوز اور یورڈو قابل ذکر شہر ہیں۔ فرانس کے قدیم باشندے سیلٹک قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ 51 ق م میں روم نے اس خطے پر قبضہ جما لیا، یہ قبضہ 476ء تک قائم رہا۔ پھر فرانک ادھر آئیں اور انہوں نے مملکت فرانس کی بنیاد رکھی۔ 15 ویں صدی عیسوی میں فرانس ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا۔ 16 ویں صدی عیسوی میں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان مذہبی جنگ چھڑ گئی جو پوری ایک صدی تک جاری رہی۔ اس کے بعد لوئی قوم اقتدار میں آئی۔ اس دور میں فرانس نے خوب سیاسی، تمدنی اور فوجی ترقی کی۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر میں عظیم انقلاب فرانس رونماء ہوا جو حالیہ عالمی تاریخ کا ایک بڑا اور اہم واقعہ ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں نپولین بوناپارٹ مسند اقتدار پر بیٹھ گئے جنہوں نے پہلی فرانسیسی سلطنت قائم کی لیکن یہ بھی فرانس کے لیے عمومی طور پر ایک مشکل دور تھا۔ نپولین کے عہد میں لڑی جانے والی جنگوں نے نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ کو بے حد متاثر کیا۔ ملک سخت بد نظمی اور انتشار کے لپیٹ میں چلا گیا یوں چھوٹی بڑی تبدیلیاں آتی رہی اور سیاسی نظام مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا یہاں تک کہ جنگ عظیم اول اور دوم نے دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ فرانس دونوں جنگوں میں شریک رہا۔
چارلس ڈیگال نے 1958ء میں پانچویں فرانسیسی جمہوریہ کی بنیاد رکھی جو اب تک قائم ہے۔ چارلس ڈیگال 1890ء کو پیدا ہوئے اور 1970ء میں وفات پائی۔ آپ جدید فرانس کے معمار ہیں، آپ شجاعت اور بصیرت سے مملو اور وسیع الظرف انسان تھے۔ 60 کی دہائی میں فرانس سے اپنے تمام نو آبادیوں نے آزادی حاصل کی۔ تاہم فرانس اور اس کے سابقہ نو آبادیوں کے درمیان اب بھی مضبوط اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم ہیں۔ فرانس کی موجودہ ترقی اور عظمت جبکہ یورپ کے اتحاد اور استحکام میں بنیادی کردار چارلس ڈیگال کا ہے۔ انہوں نے نہ صرف فرانس میں ایک مضبوط سیاسی نظام تشکیل دے دیا بلکہ یورپی یونین کی بنیاد رکھنے میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا۔ میرا خیال ہے فرانس اور یورپ کے باشندے چارلس ڈیگال کے طویل عرصے تک ممنون احسان رہے گے۔ چارلس ڈیگال اور جرمن چانسلر ایڈی نور یورپ کو جنگوں کی سیاست سے نکال کر اتحاد اور باہمی تعاون کی سیاست میں لے آیا جس سے دنیا کا ایک طاقتور اور باوقار اتحاد وجود میں آیا۔
فرانس ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے۔ خام ملکی پیداوار میں دنیا بھر میں ساتویں نمبر پہ، مساوی قوت خرید کے لحاظ سے نویں نمبر پہ جبکہ مجموعی خانگی دولت (جی ڈی پی) کے لحاظ سے چوتھے نمبر پہ ہے۔ تعلیم، صحت، خوشحالی، متوقع (معیاری) زندگی اور انسانی ترقی کے پیمانوں پہ فرانس دنیا کے نمایاں ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ فرانس کے پرفیومز دنیا بھر میں مقبول ہے۔ یہ صنعت پوری دنیا میں فرانس کی شناخت بن چکی ہے۔ کیا بعید کہ اپنے اس پروڈکس سے وہ کافی زرمبادلہ کماتا ہو۔ فرانسیسی لوگ اپنے قد کاٹھ، رنگ و روپ، لباس و پوشاک، زبان و ادب اور نوع بہ نوع پکوانوں کی لذت و ذائقوں کے اعتبار سے دنیا کے پہلے یا دوسرے نمبر پر ہیں۔ ماحولیاتی حسن میں فرانس دنیا کا جاذب ترین ملک ہے۔ آبشاریں، باغ، کھیت کھلیان، پھل پھول، درخت اور ساحل ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ سیاحت کے خواہشمند افراد کے دل و دماغ میں فرانس ایک مرغوب ترین منزل کے طور پر نقش ہے۔ ہمہ جہت حسن، مسرت و شادمانی، سہولت و نفاست، سرعت و تنوع اور تاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات کی کثرت دلوں، ذہنوں اور ہاتھ پاوں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں دس کروڑ سیاحوں نے فرانس کا رخ کیا، یہ ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
بہت ساری ایسی چیزیں دنیا میں ہیں کہ جن کو انسانیت کا مشترکہ اثاثہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت سارے اہداف ایسے ہیں جو عالمی برادری کی متفقہ منزل بن سکتی ہے مثلاً امن، علم، ادب، خوشحالی، تحفظ، احترام، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ، ڈائیلاگ اور مخلصانہ مذاکرات وغیرہ۔ اج کا انسان تاریخ اور ترقی کے جس مقام پر کھڑا ہے یہاں تک پہنچانے میں پوری انسانیت کا ہمہ گیر کردار، مسلسل محنت، لگاتار تجربات، علم اور قربانی کار فرما ہے۔ احترام باہم اور بقائے باہم وہ فطری اصول ہیں جن سے کام لے کر دنیا کے امن اور استحکام کو دوام دیا جا سکتا ہے۔
مغرب و مشرق کے درمیان تاریخی آویزش موجود ہے جس کی بنیادوں میں مذہب، سیاست، جغرافیہ، مختلف تصوراتی تعبیرات اور فکر و نظر کے اختلافات موجود ہیں اس مسئلے نے متعدد مرتبہ ایک دوسرے کو مدمقابل لایا ہیں۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ انسان کی ازلی و ابدی ضرورت امن، تعاون اور مفاہمت ہے۔ ہر دور کی طرح آج بھی امن، تعاون اور مفاہمت ایک دو طرفہ ضرورت ہے۔ امن، تعاون اور مفاہمت مطلوب چیزیں ہیں جبکہ جنگ ایک عارضی اور قابلِ اختتام حالت ہوتی ہے۔ ہمارے اوپر خالق کائنات کے پیغام کو دنیا بھر تک پہنچانے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے جبکہ مغرب کو بھی اپنے تجارتی مقاصد کے لیے انسانوں سے بھری اور امن سے آراستہ دنیا چاہیے۔ قدرت نے ہم دونوں (مغرب و مشرق) کو ایک دوسری کی دائمی ضرورت بنایا ہے۔ اس لیے ایک وسیع ترین مفاہمتی دور چلنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا موقع پیدا ہو بلکہ باہمی استفادے کے لیے بھی ایک سازگار فضا میسر آئے۔
فرانس کا ذکر ہو اور ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کا ذکر نہ ہو تو یہ ممکن نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم و مغفور عصر حاضر کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھی جنہوں نے علمی اور دعوتی دائروں میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اپ کئی عشرے فرانس میں رہ کر ایک ایسا علمی اور دعوتی کام کیا جو بلا شبہ کئی اکیڈمیوں سے بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم تھا کہ وہ فرانس میں بیٹھ کر ایک قابل قدر علمی اور دعوتی کام کے پوزیشن میں آئیں۔ حدیث، فقہ، تاریخ اور اسلامی قانون کی تدوین میں آپ کا کام ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔ اپ کا علمی کنٹریبیوش نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک اثاثہ ہے۔ اپ بیس برس تک فرانس کے "قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق” سے وابستہ رہے۔ کئی ہزار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ فرانسیسی، جرمن، روسی اور ترکی سمیت تقریباً بائیس زبانوں پر نہ صرف عبور رکھتے تھے بلکہ ان میں تخلیقی اور تصنیفی کام بھی کیا۔ ان سے جب ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اپ کسی اسلامی ملک میں اقامت اختیار کیوں نہیں کرتے؟ تو بتایا کہ "جو آزادی، آسانی، رسائی اور سہولت یہاں (فرانس میں) میسر ہیں یہ اور کہیں نہیں، میں ادھر ہی ٹھیک ہوں”۔
میری دعا ہے کہ عالمی سیاست، معیشت اور ثقافت میں وہ لچک اور قبولیت در آئے جس کی بدولت مختلف پس منظر رکھنے والے لوگ متفقہ دائروں کی جانب بڑھیں، باہم مل بیٹھیں، ایک دوسرے کو جانیں اور پہچانیں، ایک دوسرے کی خدمت کریں، ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کو اپنے مذاہب، تہذیبوں، زبانوں، تاریخی اقدار اور انفرادی رویوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ حقائق کو حقائق کے طور پر قبول کریں اور غلط فہمیوں کو جو بدقسمتی سے بہت ساری ایک دوسرے سے لاحق ہیں دور کرنے کا انتظام ہو۔ مجھے امید ہے اس اہتمام سے پوری دنیا رہنے کے لیے ایک زیادہ پرامن، خوشحال اور بہتر جگہ بن جائے گی۔