کراچی : آج 18 اپریل کو تھانہ پریڈی کی حدود میں احمدیہ ہال کراچی کے باہر چھیالیس سالہ احمدی لئیق احمد چیمہ کو ہجوم نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں وہ موقع پر جان کی بازی ہار گئے۔تفصیلات کے مطابق احمدی عبادتگاہ میں مقامی احمدی حسب معمول جمعہ کی عبادت کے لئے جمع ہوئے ۔اس موقع پر تحریک لبیک سے وابستہ ایک متشدد ہجوم نے احمدیہ عبادت گاہ کا گھیراؤ کر لیااور نعرے بازی شروع کر دی۔اس دوران لئیق احمد چیمہ جو عبادتگاہ سے تقریباً 150 میٹر دور تھے، ان کو مشتعل ہجوم نے شناخت کر کے ان پر اینٹوں اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا ۔بہیمانہ تشدد کے نتیجہ میں وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ان کی عمر 46سال تھی۔ان کے پسماندگان میں 2بیوہ ،3 بیٹے اور 4 بیٹیاں شامل ہیں۔
https://www.facebook.com/share/p/1Ac7w9RHew/
کراچی کے تھانہ صدر کے ایس ڈی پی او محمد صفدر کے مطابق عبادت گاہ کے باہر ہونے والے احتجاج کے دوران احمدی شہری مظاہرین کے تشدد سے ہلاک ہوا ہے۔ پولیس کے مطابق عبادت گاہ کے باہر کس نے ہنگامہ آرائی کی اور مقتول پر کس نے تشدد کیا، اس حوالے سے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد تحقیقات کی جائیں گی۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (ڈی آئی جی) سید اسد رضا نے بتایا: "تقریباً 400 تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنان موبائل مارکیٹ کے قریب واقع ہال میں جمع ہوئے۔”
انہوں نے کہا کہ شہر کے علاقوں شاہ لطیف، سرجانی اور کھوکھراپار میں اسی نوعیت کے واقعات کے پیش نظر پولیس پہلے سے ہی وہاں تعینات تھی۔ ڈی آئی جی رضا کے مطابق پولیس، رینجرز، اور ضلعی انتظامیہ نے فوری کارروائی کی اور عبادت گاہ کے اندر موجود احمدی برادری کے افراد کو تحفظ فراہم کیا۔انہوں نے بتایا کہ کمیونٹی ہال کے قریب واقع آٹو پارٹس مارکیٹ کے نزدیک ایک واقعہ پیش آیا جہاں "ایک شخص کو مبینہ طور پر ٹی ایل پی کارکنوں نے تشدد کا نشانہ بنایا،” اور بعد ازاں اُسے اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ احمدی برادری نے دعویٰ کیا ہے کہ جاں بحق شخص اُن کا رکن تھا اور اس عبادت گاہ سے وابستہ تھا۔ "پولیس اس دعوے کی حقیقت جانچ رہی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی جا رہی ہے.
بعد ازاں، پریڈی تھانے کے ایس ایچ او شبیر حسین نے میڈیا کو بتایا کہ ایک شخص، جس کی شناخت 46 سالہ لئیق چیمہ کے طور پر ہوئی، "ہاشو سینٹر کے قریب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں کی ویڈیو بنا رہا تھا، جب ہجوم نے اُس پر حملہ کیا اور اُسے مار دیا۔”ایس ایچ او نے تصدیق کی کہ مقتول احمدی برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا: "ہم نے جیل وین بلوائی تاکہ کمیونٹی ہال کے اندر موجود تقریباً 45 سے 50 افراد کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکے۔”
ترجمان جماعت احمدیہ پاکستان عامر محمود نے جمعہ کے روز متشدد ہجوم کے ظالمانہ تشدد سے لئیق احمد چیمہ کے قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے شدید مذمت کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سماج میں احمدیوں کے خلاف مسلسل نفرت پھیلائی جا رہی ہے اور کھلے عام احمدیوں کے قتل کے فتوے دیئے جاتے ہیں۔گذشتہ چند ماہ سے تحریک لبیک احمد ی عبادتگاہوں کا گھیراؤ کر رہی ہے اور انتظامیہ ان کے مطالبات پر چار دیواری کے اندرعبادت کرنے والے احمدیوں کو مقدمات درج کر کے گرفتار کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ احمدیہ ہال کراچی پر 2 فروری 2023اور4ستمبر2023کو بھی حملہ کر کے اس کے میناروں کو مسمار کر دیا تھا۔ترجمان جماعت احمدیہ نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20میں شہریوں کی مذہبی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی ضمانت دی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے "قانون اور نظم و ضبط کی مکمل ناکامی” قرار دیا، اور کہا کہ یہ واقعہ اس "محصور اور دبائے گئے طبقے کے خلاف منظم ظلم میں ریاست کی مسلسل شراکت داری” کی ایک واضح علامت ہے۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ صدر میں ہونے والے حملے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، اور "دائیں بازو کے دباؤ کے آگے جھکے بغیر اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔”گزشتہ ماہ ایچ آر سی پی نے نشاندہی کی تھی کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہجوم کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔رپورٹ میں احمدیوں کی "من مانے طریقے سے گرفتاری”، "قبروں کی بے حرمتی”، اور ہندو و عیسائی خواتین کو جبری تبدیلیٔ مذہب کا نشانہ بنائے جانے جیسے واقعات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
"محصور: 2023-24 میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال” کے عنوان سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2023 تک توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت 750 سے زائد افراد جیلوں میں تھے، جن میں کم از کم چار افراد کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کیا گیا—جن میں سے تین احمدی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔رپورٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ زیادہ تر توہینِ مذہب کے مقدمات کی بنیاد سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی گمراہ کن معلومات تھیں۔ایچ آر سی پی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ احمدی برادری کے خلاف توہینِ مذہب کے قوانین کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، اور اکثر مقدمات خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کی جانب سے شروع کیے جاتے ہیں۔