سندھ میں ہلچل کے ملکی سیاسی اثرات

سندھ میں حالیہ دنوں پیدا ہونے والی ہلچل نے نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں سیاسی غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے اور یہ باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ سندھ حکومت کیخلاف کسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی ہوسکتی ہے ، گورنر راج اور ایمرجنسی کے نفاذ کی باتیں زبان زدعام ہیں ۔ سندھ کے صوبائی وزیر منظور وسان کا دعویٰ ہے کہ” فروری بہت سخت ثابت ہوگا اور سندھ سے اٹھنے والا دھواں اسلام آباد اورپنجاب تک پھیل جائے گا ”،ان کا یہ بیان بین السطور میں بہت کچھ واضح کر رہا ہے ۔

پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاج کے دوران 2 فروری کو پیش آنے والے سانحہ اور اس کے بعد کے ردعمل کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ سانحہ ایک سازش ہے اور اس کے پس پردہ کون ہے اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔پی آئی اے ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ کے بارے میں بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ صاحب اچانک کیوں سرگرم ہوتے ہیں اور پھر منظر سے کیوںغائب ہوتے ہیں؟پی آئی اے کے بعض یونین رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ ملازمین کی پر امن اورحقوق کی جدو جہدہائی جیک کرکے اب سیاست اور اداروں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دو فروری کا سانحہ سندھ میں پیش آنے کی وجہ سے سندھ حکومت اور سندھ کی سیاسی قوتوں پر بھی اثرات مرتب ہونا یقینی ہے ،تاہم اس کے اثرات سے ملک کا کوئی حصہ محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔

سندھ حکومت اوررینجرز کے مابین تین ماہ سے جاری کشیدگی میں کمی آئی ہے اور اس بار پیپلزپارٹی کی حکومت نے رینجرز کے خصوصی اختیارات کی مدت میں توسیع بغیر کسی مزاحمت کے کیاہے،تاہم رینجرز کی جانب سے کالعدم لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کی اچانک گرفتاری نے جہاں گینگ وارکی سیاست کو ایک سخت دھچکا پہنچادیاہے وہیں پیپلزپارٹی کے بعض رہنماؤں کے حوالے سے کئی سوالات پیدا کئے ہیں۔

بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ عزیر جان بلوچ پیپلزپارٹی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور اس کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کے کئی سینئر اور جونیئر رہنمائوںپر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی اس میں پیپلزپارٹی کی آصف علی زرداری سمیت اعلیٰ قیادت اور کئی صوبائی سابق وفاقی وزراء بھی ہوسکتے ہیں۔

اس ضمن میں میڈیا میں جو نام اور الزام زیر بحث ہیں اگر ان میں حقیقت ہے تو پھر پیپلزپارٹی کیلئے عزیر جان بلوچ خوفناک ثابت ہوںگے ۔شاید اس کا اداراک پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی ہے اس لئے اب ہر طرف سے لاتعلقی ہورہی ہے ۔بعض مبصرین کے مطابق یہ لاتعلقی پیپلزپارٹی کے لئے مزید مشکلات کا سبب بنے گی کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عزیر جان بلوچ اور ان کے بیشتر ساتھیوں کا تعلق ایک طویل عرصہ تک پیپلزپارٹی سے رہاہے اور اس کے ناقابل تردید شواہد موجودہیں ۔

بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لیاری سے منتخب ہونے والے رکن قومی اور دو ارکان سندھ اسمبلی کی اصل نامزدگی بھی پیپلزپارٹی نے عزیر جان بلوچ کے مطالبے پر کی غالباً یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے ان ارکان پر لیاری گینگ وار کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے غالباً پہلی مرتبہ اس طرح لاتعلقی کا اظہارہے جو پیپلزپارٹی کی ایک سیاسی غلطی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک عزیر جان بلوچ کا تعلق ہے اس حقیقت سے انکار نہیں ان کا تعلق طویل عرصہ تک جرائم پیشہ سے رہااور لیاری میں وہ حکمرانی کرتے رہے ۔ پیپلزپارٹی سے ان کی ناراضگی کے بعدان کی قربت کیلئے سندھ کی قوم پرست جماعتوں ، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں نے بھی تگ دو کی،

یہاں تک کہ عزیر جان بلوچ نے پیپلزپارٹی سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ بھی کیااور عمران کے احتجاج کی متعدد بار حمایت بھی کی۔ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کو سیاسی لاتعلقی کا اعلان کرنے کے بجائے جرائم سے لاتعلقی کا اظہار کرتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ ایسی صورت میں عزیر جان بلوچ کی جانب سے خطرات کم ہوتے تاہم اب صورتحال کافی پیچیدہ ہوچکی ہے۔

رینجرز نے عزیر جان بلوچ کی گرفتاری 30جنوری2016ء کو جس انداز میں ظاہر کی ہے اس نے کئی سوالات کو جنم دیاہے۔ مختلف حلقے یہ سوال اٹھارہے ہیںکہ ”دبئی میں موجودعزیر بلوچ کراچی کے مضافات میں اچانک کیسے نمودار ہوا؟دبئی سے کون نکال کر لایا اور کس راستے سے وہ کراچی پہنچے؟” عزیر جان بلوچ کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ ان کو تقریبا ًایک سال قبل دبئی سے حراست میں لیکر پاکستان میں منتقل کیا گیا تھا اسی طرح کی اطلاعات متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنماء حماد صدیقی کے حوالے سے بھی ہیں اور یہ باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ عزیر جان بلوچ کے بعد اگلا مرحلہ حماد صدیقی کی گرفتاری کا ظاہر کرنا ہے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کو سیاسی بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرنے کے بجائے ان کو ان کے جرائم کی نظر سے دیکھیں اور اگر ان کے جرائم میں کسی سیاسی یا حکومتی شخصیت کا دانستہ کردار ہے تو اسے مکمل شواہد کے ساتھ بے نقاب کیاجائے۔

متحدہ قومی موومنٹ تقریبا 2سال سے کافی مشکل میں دیکھائی دے رہی تھی لیکن حالیہ چند ماہ میں اس کو اچھی خبریں مل رہی ہیں ۔این اے 246کے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میںکراچی اور حیدرآباد سے واضح اکثریت نے ایم کیو ایم کو اخلاقی برتری دی اور اب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے لندن میں قائم مقدمات میں ملنے والے ریلیف نے ایم کیوایم کے حوصلے بلند کئے ہیں مگر کچھ مشکلات اب بھی باقی ہیں ۔ایم کیوایم نے حالیہ چند ماہ کے دوران صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی تنظیم میں کافی حدتک ردبدل کیا۔ پہلے نچلی سطحہ پر تنظیمی ڈھانچے کو تبدیل کیا گیا اور اب قائد کی عدم موجودگی میں فیصلے کیلئے 9رکنی سپریم کونسل قائم کی گئی ہے جبکہ لندن میں موجود رہنماء ندیم نصرت کو رابطہ کمیٹی کا مستقل کنوینئر مقرر کیاگیاہے۔

ایم کیو ایم کو چاہیے کہ اب ماضی کے حالات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں سندھ کے شہری علاقوں میں مثبت تبدیلی اور مسائل کے حل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے اور بلا وجہ مخالفت و مخاصمت کا رویہ ترک کرکے بالغ نظری کا مظاہرہ کرے، کیونکہ اب کی بار بھی اگر ایم کیوایم نے ماضی کی تاریخ دھرائی تو مستقبل سوالیہ نشان بن جائے گا۔ ایم کیوایم کا میئر کے اختیارات کیلئے احتجاج بھی جاری ہے تاہم پیپلزپارٹی بھی اپنے موقف پر قائم ہے ۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ” جس بلدیاتی نظام کے تحت ایم کیوایم نے الیکشن میں حصہ لیا ہے اسی کے مطابق اختیارات بھی ملیں گے” ۔ دوسری جانب صوبے میں بلدیاتی اداروں کی 10711مخصوص نشستوں کا انتخاب بھی آخر مرحلے میں داخل ہوچکاہے اور امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوچکی ہے اور اب8اور 14فروری کو انتخاب ہوگا، صوبے میں 30فیصد سے زائد نشستوں پر پیپلزپارٹی اورایم کیوایم کے امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود مخصوص نشستوں کا انتخابی عمل سوالیہ نشان ہے کہ انتخاب آیا” شو آف ہینڈ ” سے ہوگا یا” خفیہ رائے شماری” کے ذریعے؟

19جنوری کو سندھ اسمبلی نے بلدیاتی ایکٹ 2013میں ترامیم کرکے میئر ڈپٹی میئر ، چئرمین اور وائس چیئرمین کی نشستوں کیلئے خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے طریقے کو اختیار کیاجبکہ اس سے دو روز قبل الیکشن کمیشن کوحکومت سندھ نے آگاہ کیا کہ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے ساتھ ساتھ تمام مخصوص نشستوں کا انتخاب ”شو آف ہینڈ ”سے ہوگا جس کی مزید وضاحت انہوں نے الیکشن کمیشن کے نام27جنوری کو لکھے گئے خط میں بھی کیاتاہم عملاً الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مخصوص نشستوں کیلئے انتخاب” شو آف ہینڈ” کے بجائے ”خفیہ رائے شماری” سے کرانے کا فیصلہ کیاہے یہی وجہ ہے کہ امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا عمل بھی تقریبا مکمل ہوچکاہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہناہے کہ آئین کے مطابق وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے سوا تمام انتخابات میں خفیہ رائے شماری سے ہونگے ،

اس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ آئین کے آرٹیکل 226سے متصادم ہے اور ہم آئین کو توڑ نہیں سکتے۔ بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ مخصوص نشستوں پر پولنگ سے قبل صوبائی حکومت، سندھ کے بلدیاتی انتخابی قوانین میں ردوبدل کے باوجود خفیہ رائے شماری کے مطابق الیکشن کرانے کے عمل کو چیلنج کرسکتی ہے جس کے بعد مخصوص نشستوں کا انتخاب سوالیہ نشان بن سکتاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے