وقوفِ عرفات: عالمی وحدت اور انسانی عظمت کے تجدید کا عظیم ترین شاہکار

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، اور اس کا سب سے اہم جزو وقوفِ عرفات ہے۔ نبی مہربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ”حج عرفات ہے” (سنن الترمذی)۔ یہ ایک ایسا منفرد روحانی، جذباتی اور بین الاقوامی ہے کہ جو لاکھوں مسلمانوں کو مختلف ثقافتی، لسانی، سماجی اور جغرافیائی پس منظر سے جوڑ کر ایک ہی مقصد کے تحت اکٹھا کر دیتا ہے۔ لیکن وقوفِ عرفات صرف ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ اس کے گہرے عالمی، ثقافتی اور انسانی پہلو بھی ہیں جو اسے ایک انوکھے اجتماعی تجربے میں بدل دیتے ہیں۔

عالمی وحدت کا ایک خوبصورت مظہر: ایک ہی مقام، ایک ہی لباس اور ایک ہی دعا

عرفات کا میدان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی مجلسِ وحدت بن جاتا ہے، جہاں سفید، سیاہ، ایشیائی، افریقی، یورپی اور عرب سب ایک ہی طرح کا سادہ لباس (احرام) پہن کر اپنی تمام تر ظاہری تفریق کو مٹا دیتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک امریکی مسلمان اپنے ہاتھ اٹھا کر اسی طرح دعا مانگ رہا ہوتا ہے جیسا کہ ایک ایشیائی یا براعظم افریقہ کا حاجی کرتا ہے۔ یہاں کوئی امیر غریب، بادشاہ یا فقیر نہیں ہوتا بلکہ سب ایک ہی اللہ کے سامنے یکسو ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ثقافتی تنوع کے درمیان ہم آہنگی

لاکھوں حاجی اپنے اپنے ثقافتی رنگ لے کر آتے ہیں۔ ترکی کے نفاست پسند لوگ، جنوبی ایشیا کے ذاکرین، عرب کے اہلِ علم، افریقہ کے صوفی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غرض سب کے دعا کے انداز اور الفاظ الگ ہوتے ہیں، لیکن روح اور مقصد ایک ہوتا ہے۔ یہ ثقافتی تنوع درحقیقت اسلام کی جامعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ وقوف عرفات کا دن ثقافتی اختلافات کے باوجود اتحاد کا سبق دیتا ہے، جو آج کے تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے عالمی معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے۔

روحانی یکسانیت: ایک ہی پیغام، ایک ہی منزل

عرفات میں وقوف درحقیقت انسانی مساوات کا سبق دیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں انسانوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، محنت کشوں کے اور سماجی انصاف کے اصول بیان کیے تھے۔ آج بھی یہ میدان اسی پیغام سے ہر سال گونج اٹھتا ہے۔ جب تمام حاجی "لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ” پکارتے ہیں، تو یہ گویا پوری انسانیت کی طرف سے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان ہوتا ہے۔

جدید دنیا کے لیے ایک جامع پیغام: یکجہتی اور سادگی

آج کی دنیا نفرت، مادیت، تنگ نظری، تعصب اور نسلی تفاخر میں گھری ہوئی ہے۔ وقوف عرفات کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی کامیابی مال و دولت میں نہیں، بلکہ روحانی، اخلاقی اور جذباتی بالیدگی اور دوسروں کے ساتھ حقیقی یکجہتی میں ہے۔ مغرب کی "انفرادیت” اور مشرق کی "اجتماعیت” کے درمیان عرفات ایک ایسا پُل ہے جو دونوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔

عرفات سے واپسی: ایک نئی زندگی کا آغاز

حاجی جب عرفات سے لوٹتے ہیں تو وہ گویا اپنے گناہوں سے پاک ہو کر نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے بعد بہت سے لوگوں کی زندگیاں کافی حد تک بدل جاتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ واپس صبر، اخوت، مہربانی اور سادگی کا وہ درس لے کر جاتے ہیں جو کہ عرفات کے میدان نے انہیں دیا ہوتا ہے۔

وقوف عرفات صرف ایک دن نہیں، ایک فلسفہ ہے!

وقوفِ عرفات کے اثرات اور ثمرات صرف اس کے جغرافیائی مقام تک محدود نہیں رہنے چاہیں۔ یہ درحقیقت انسانی وحدت، اخلاقی بلندی، روحانی آسودگی اور عالمی بھائی چارے کا ایک زندہ و جاوید تصور ہے۔ اگر دنیا عرفات کے پیغام کو سمجھ لے تو نسلی تعصب، طبقاتی تقسیم اور مذہبی منافرت کا خاتمہ عین ممکن ہے۔

عرفات کا میدان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ "اللہ کے سامنے ہم سب برابر ہیں” اور یہی وہ سبق ہے جو لمحہ موجود میں پوری انسانیت کو سب سے بڑھ کر درکار ہے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے بڑے اجتماع سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا!

"لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ (آدم) ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے