ایران-امریکہ جوہری مذاکرات کے چھٹا دور کا آغاز کشیدگی کے سائے میں

ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر چھٹے دور کے مذاکرات 10 جون کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں اس وقت شروع ہوئے جب خطے میں تناؤ عروج پر ہے، فوجی دھمکیاں بڑھ رہی ہیں اور ایران و امریکہ کی قیادت کی سخت بیانات کے باعث خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی کھلی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ان مذاکرات کی میزبانی عمانی ثالثوں اور یورپی ایلچیوں نے کی، جنہیں خطے میں ایک آخری سفارتی کوشش سمجھا جا رہا ہے تاکہ بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کو روکا جا سکے۔

پالیسی کے طور پر دونوں جنگ سے گریز کرنا چاہتے ہیں مگر اپنی اپنی شرائط پر۔ امریکہ کا اصرار ہے کہ ایران یورینیم کی کم سے کم افزودگی کے قانونی حق سے بھی دستبردار ہو جائے۔

مذاکرات کے آغاز سے ایک روز قبل، 9 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان دے کر سفارتی عمل پر شبہات کا اظہار کیا۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا: “مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ایران اتنا جارحانہ کیوں ہو رہا ہے۔”

اس بیان کو واشنگٹن میں اس بات کی علامت سمجھا گیا کہ امریکی قیادت ایران کی سنجیدگی پر شکوک رکھتی ہے اور مذاکراتی عمل سے زیادہ پرامید نہیں۔

اس سے دو روز قبل، 8 جون کو امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے امریکی ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ پینٹاگون پہلے ہی صدر کو ایران پر ممکنہ حملے کے لیے “متعدد منصوبے اور آپشنز” پیش کر چکا ہے۔

جنرل کوریلا نے کہا: “اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پینٹاگون نے ایران پر حملے کے کئی منصوبے صدر کو پیش کیے ہیں۔”

اگرچہ انہوں نے تفصیلات فراہم نہیں کیں، لیکن ان کے بیان سے ظاہر ہوا کہ امریکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کے لیے مکمل تیاری کر چکا ہے۔

ایران نے اس کا فوری اور سخت جواب دیا۔ 10 جون کو مذاکرات کے آغاز کے دن، ایران کے وزیرِ دفاع نے ایک سرکاری ٹی وی پر اپنے بیان میں اعلان کیا کہ ایران نے حال ہی میں ایک ایسا میزائل کامیابی سے تجربہ کیا ہے جو دو ٹن وزنی وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا:

“اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو دشمن کو بھاری نقصان ہوگا اور امریکہ کو خطے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ ہم خطے میں موجود تمام امریکی اڈوں کو بلا تردد نشانہ بنائیں گے۔ پچھلے ہفتے ہی ہم نے دو ٹن وارہیڈ والا میزائل کامیابی سے تجربہ کیا ہے۔”

اس اعلان کو ایران کی میزائل طاقت میں کافی اضافہ قرار دیا جا رہا ہے اور اس سے واشنگٹن، تل ابیب اور ریاض میں مزید تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ اسرائیل کئی بار دھمکی دے چکا ہے کہ امریکہ نے ساتھ نہ بھی دیا تب بھی اسرائیل ایران کی نیوکلیئر اور ملٹری تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔

خطے میں اس صورتحال پر شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ 10 جون کو سعودی عرب کی قیادت میں کئی عرب ریاستوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا:

“ایران کو فوری طور پر امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ خطے میں جنگ کو روکا جا سکے۔”

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران معاہدہ کر بھی لیتا ہے تو اس کا ایک اثر یہ ہوگا کہ اسرائیل واحد ایٹمی طاقت کے طور پر باقی رہے گا، جو مشرق وسطیٰ میں مستقل اسٹریٹجک برتری حاصل کر لے گا — یہ امر کئی عرب ممالک کے لیے قابل قبول نہیں مگر کسی کی ہمت نہیں کہ اسرائیل کو چیلنج کر سکے۔

ایران کے حالیہ اقدامات، بشمول میزائل تجربات، صرف دفاعی اقدامات نہیں بلکہ ان میں ایک سفارتی حکمت عملی کا پہلو بھی پوشیدہ ہے — تاکہ امریکہ پر زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔

دوسری جانب، امریکہ کا مطالبہ ہے کہ ایران مکمل طور پر یورینیئم کی افزودگی روکے، بین الاقوامی جوہری ادارے (IAEA) کو مکمل رسائی دے اور میزائل پروگرام پر بھی پابندی عائد کرے۔ ایران اس کے بدلے میں مکمل اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور سلامتی کی ضمانت کا مطالبہ کر رہا ہے، اور اس کا مؤقف ہے کہ امریکہ نے ماضی میں معاہدے توڑ کر اپنی ساکھ کھو دی ہے۔

مسقط میں مذاکرات بند کمروں میں جاری ہیں اور وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اگر فریقین کسی سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے تو نتائج نہ صرف سنگین ہوں گے بلکہ شاید ناقابلِ واپسی بھی۔ فوجی تیاریوں، میزائلوں کی دھمکیوں، اور خطے میں منقسم رائے کے پیش نظر سفارت کاری کی راہ اب نازک اور خطرناک ہو چکی ہے۔

اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو ممکن ہے کہ 2015 کے ایران جوہری معاہدے (JCPOA) کے بعد، امریکہ اور ایران کے درمیان یہ سب سے بڑا براہِ راست تصادم ثابت ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے