کراچی: لیاری میں گرنے والی عمارت کا ملبہ ہٹانےکا کام جاری، جاں بحق افرادکی تعداد 18ہوگئی

کراچی: لیاری میں عمارت کے ملبے سے مزید 2 لاشیں نکال لی گئیں جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد 18 ہوگئی۔

ریسکیو حکام کے مطابق جائے حادثہ پر آپریشن جاری ہے اور انتہائی احتیاط کے ساتھ ملبہ ہٹانےکا کام کیا جارہا ہے، ملبے تلے اب بھی لوگوں کے دبے ہونے کا خدشہ ہے جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

ریسکیو حکام کا کہنا ہےکہ آج ملبے سے 4 افرادکی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد 18 ہوگئی ہے۔ ملبے سے 10مرد،7 خواتین اور ایک بچےکی لاش نکالی گئی ہے۔

ریسکیو آپریشن میں مزید 8سے 10 گھنٹے لگیں گے: ڈی سی

دوسری جانب ڈی سی ساؤتھ جاوید کھوسو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریسکیو آپریشن میں مزید 8سے 10 گھنٹے لگیں گے، احتیاط کے ساتھ ریسکیو آپریشن کو اگلے مرحلے میں داخل کیا گیا، ملبے میں اب بھی 10سے 12 افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

ڈی سی نے کہا کہ اس عمارت کو 3 سال قبل خطرناک قرار دیا گیا تھا، ڈیڑھ ماہ قبل بھی عمارت کو نوٹس جاری کیا تھا، لیاری میں اب بھی انتہائی خطرناک 22 عمارتیں موجود ہیں اور اب تک لیاری میں 16 خطرناک عمارتوں کو خالی کروادیا ہے، دیگر عمارتوں کو خالی کروانے کے لیےکارروائی کی جارہی ہے۔

جاوید کھوسو نے بتایا کہ نوٹس کے بعد رہائشیوں کو عمارت خالی کرنے کے لیے آگاہ کیا جاتا ہے، خطرناک عمارتوں کے بجلی اور گیس کنکشن کاٹے جاتے ہیں، عمارت خالی نہ کی جائے تو قانونی کارروائی ہوتی ہے۔

عمارت میں ہر فلور پر کتنے گھر تھے؟

لیاری میں گرنے والی 5 منزلہ عمارت کی مالکن خاتون کے بھتیجے نے بتایا کہ عمارت کے ہر فلور پر تین پورشن تھے اور جب بھی یہاں آنا ہوا عمارت لوگوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد چوتھی منزل پر رہتے تھے، خاتون کو تشویش ناک حالت میں نکالا گیا ، بیٹا انتقال کرگیا اور3 رشتے دار اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

واضح رہےکہ گزشتہ روز جمعہ کو لیاری کے علاقے بغدادی میں 5 منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہوگئی تھی جس میں 6 خاندان رہائش پذیر تھے۔

ملبے کے نیچے پھنسے انسان کی حرکت کا پتا لگانے والی ناسا کی خاص ٹیکنالوجی

ناسا کی تیار کردہ ایک خاص ٹیکنالوجی جو ملبے کے نیچے پھنسے انسان کے جسم کی معمولی سی حرکت کا بھی پتہ لگا لیتی ہے۔

اِس ٹیکنالوجی پر مبنی آلے کو ‘فائنڈر’ کہتے ہیں جو ایمرجنسی میں زندہ افراد کو ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

یہ آلہ مائیکروویو ریڈار سینسرز کے ذریعے ملبے کے نیچے یا برفانی تودے میں دبے لوگوں کی سانس اور دل کی دھڑکن کو دور سے محسوس کرکے ان کی موجودگی کا پتا لگاتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی امریکی محکمہ برائے داخلی سلامتی اور امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے مل کر تیار کی تھی جو خاص طور پر عمارتوں کے ملبے میں پھنسے لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی۔

اس ٹیکنالوجی کو ہیٹی کے 2010 کے تباہ کن زلزلے کے بعد تیار کیا گیا اور پھر اُسے کمرشل بنیادوں پر ریلیز کیا گیا، اس کے علاوہ 2023 میں ترکیہ اور شام کے زلزلے میں ناسا نے اپنے مصنوعی سیاروں کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں کی تصاویر حاصل کریں تاکہ نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے اور امدادی ٹیموں کو رہنمائی فراہم کی جا سکے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں نصب ایک اور آلہ EMIT بھی استعمال میں لایا گیا جو زمین کی فضا میں گرد و غبار کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ کسی ممکنہ گیس لیک کا پاہ لگا کر خطرات کی فوری نشاندہی کی جا سکے۔

ناسا کے سیٹلائٹ ڈیٹا سے ماہرین کسی زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس کا بھی اندازہ لگاسکتے ہیں تاکہ مزید خطرات سے بچا جا سکے۔

یہ سائنسی تعاون اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایسی ٹیکنالوجیز کس طرح انسانی زندگیوں کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے