کراچی لٹریچر فیسٹیول جسے اب عموماً لوگ کے ایل ایف کہتے ہیں اور جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام منعقد ہوتا ہے ، اس میں نئے موضوعات سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے سیشن جو صبح دس بجے شروع ہوتے ہیں، ان میں سننے والوں کی تعداد نشستوں سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔
اس مرتبہ بھی یوں تو بہت سے موضوعات زیر بحث آئے لیکن ایک سیشن اردو اخبارات میں شایع ہونے والے کالموں اور انھیں لکھنے والے کالم نگاروں کے بارے میں تھا۔ وجاہت مسعود ہمارے ایک جانے پہچانے کالم نگار ہیں وہ اس کے ماڈریٹر تھے۔ مسعوداشعر ، وسعت اللہ خان، اصغر ندیم سید اور مبشر زیدی کے علاوہ خاکسار بھی اس مکالمے میں شریک تھی۔
مسعود اشعر نے ہمارے سینئر کالم نگاروں کا ذکر کیا۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد، سے ابن انشاء تک اور چراغ حسن حسرت سے مجید لاہوری ، نصر اللہ خان اور انعام درانی کا ذکر کرتے رہے۔ محفل میں موجود بیشتر کالم نگاروں کا خیال تھا کہ کالموں کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ کی طرح ان کا میڈیا ونگ وجود میں آچکا ہے۔ بہت سے کالم نگاروں کی تحریر سے صاف جھلکتا ہے کہ ان کا تجزیہ بے لاگ نہیںاور وہ کسی خاص سیاسی جماعت کے نقطہ نظر کی وکالت کررہے ہیں۔ یہ بات پڑھنے والوں کو ناگوار گزرتی ہے اور کالم نگار کی غیر جانبداری پر حرف آتا ہے۔
میں ایک مرتبہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ صحافت جب مغرب میں سماج کی آواز بن کر ابھری، اسی وقت سے ادارتی صفحے پر کالموں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ کالم نگار سیاست، سماجی مسائل، ادبی معاملات اور دوسرے اہم موضوعات پر اپنا زاویہ نظر رکھتے تھے اور اسے اختصار سے بیان کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ کالموں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس میں بڑے شہروں کی گپ شپ، فلمی ستاروں کے بارے میں معلومات اور تیکھے جملے، طنز اور مزاح کے پیرائے میں بھی کالم لکھے جانے لگے۔ انیسویں اور بہ طور خاص بیسویں صدی میں بعض کالم نگار اتنے مشہور ہوئے اور ان کے پڑھنے والوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ ان کالم نگاروں کا نام کسی اخبار کی شہرت اور اشاعت کی ضمانت بن گیا۔
دنیا کی تمام زبانوں میں شایع ہونے والے اخباروں کی کامیابی اور مقبولیت میں اس کے کالم نگار بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دنیا کے ہر اخبار کے ادارتی صفحے کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔ اب چونکہ کالم نگاری کا میدان بہت وسیع ہوگیا ہے اس لیے یہ سیاسی اور اقتصادی حالات حاضرہ سے لے کر تاریخ، ادب ، طنز و مزاح، کتابوں ، فلموں، اسٹیج ڈراموں پر تبصرے اور خواتین کے مسائل اور دلچسپی کے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ کالم نگار پر منحصر ہے کہ وہ اپنی دلچسپی اور اپنی مہارت کے کس موضوع کا انتخاب کرتا ہے۔ عموماً کالموں کو کسی خاص عنوان کے تحت شایع کیا جاتا ہے جو اس لکھنے والے سے مخصوص ہوتا ہے اور کالم نگار اپنے خیالات و افکار اور اپنی طرزِ نگارش سے پہچانا جاتا ہے۔
اردو اور برصغیر کی دوسری زبانوں میں صحافت نے برطانوی راج کے دور میں جنم لیا اور برطانیہ ، امریکا اور یورپ سے مختلف زبانوں میں نکلنے والے اخبارات کی پیروی کی۔ ابتدا سے ہی کالم اردو اخبارات کا بھی جزو لازم بن گئے ۔ بیسویں صدی کے نصف آخر سے آج تک اردو اخبارات نے تیز رفتاری سے ترقی اور جدید طرز صحافت کا سفر کیا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے درمیان کچھ اخباروں نے اپنے کالم نویسوں کے قلم کی طاقت سے شہرت ، اعتبار ، اشاعت اور سیاسی و سماجی اثرورسوخ حاصل کیا۔
اگر آپ چند اہم اخبارات کے ادارتی صفحوں اور ان پر شایع ہونے والے کالم نگاروں کی تحریروں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ان کالموں کے ذریعے اخبار پڑھنے والوں کو قومی اور بین الاقوامی سیاست، سماجی معاملات اور متعدد دوسرے اہم موضوعات پر دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے نقطئہ نظر اور ان کی سوچ سے آگاہی ہوتی ہے اور بہت سے معاملات پر اپنی رائے بنانے میں انھیں مدد ملتی ہے۔
ہمارے کئی کالم نگاروں کی وقیع تحریروں نے اپنے قارئین کی دانشورانہ سطح بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ لوگوں کے اندر کسی سیاسی جماعت یا مکتبہ فکر کی اندھی تقلید کے بجائے سوچی سمجھی اور حقائق پر مبنی رائے رکھنے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ایسے کئی معاملات جن کے بارے میں عمومی طور سے جذباتی نقطہ نظر رکھا جاتا ہے ان کے بارے میں بھی غورو فکر کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔ بارہ یا پندرہ سو الفاظ پر مشتمل یہ کالم اپنے پڑھنے والوں کو مختلف موضوعات پر نئے زاویے اور جدید خیالات سے روشناس کراتے ہیں۔
کالموں کو جمہوری دنیا میں نہایت اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں کے حکمران اپنے اپنے ملکوں کے اہم کالم نگاروں کو پڑھتے ہیں تاکہ اپنی پالیسیاں بنانے میں ان کی رائے کو مد نظر رکھیں کیونکہ وہ ان کی تحریروں کو زبان خلق ، تصور کرتے ہیں۔ایک امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل جو بنیادی طور پر مالیات کے معاملات سے متعلق ہے لیکن ملکی اور عالمی سیاست پر بھی جس کی گہری نظر رہتی ہے، اس نے اپنی اشاعت کا آغاز جولائی 1889 میں کیا تھا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے دوران جب امریکا عظیم کساد بازاری کے دور سے گزرا تو وال اسٹریٹ جرنل کے بہترین کالم نگاروں اور صحافیوں کی تحریروں نے اس اخبار کی اشاعت نہیں گرنے دی بلکہ اس کی ساکھ میں مسلسل اضافہ ہوا۔
اسی طرح یوجین فیلڈ کا شمار انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے مشہور اور بااثر کالم نگار کے طور پر ہوتا ہے جس کے کالم کا امریکا کے طول و عرض میں لوگوں کو بے تابی سے انتظار رہتا تھا۔ امریکی خواتین نے انیسویں صدی سے ہی کالم نگاری میں اپنا مقام پیدا کرلیا تھا۔
انھوں نے عورتوں کے ووٹ اور مساوی تنخواہوں کے حق، نسلی امتیاز اور غلامی کی مخالفت اور جمہوری حقوق کی لڑائی اپنے کالموں میں لڑی اور امریکی قصر صدر سے لے کر کھیت پر کام کرنے والے مزدوروں کی جھونپڑیوں تک نئے خیالات کو پھیلانے کا مشکل کام کیا۔ امریکی صدر روز ویلٹ کی بیگم ایلیز روز ویلٹ نے 1936سے کالم نگاری شروع کی جس کا سلسلہ 1962 تک جاری رہا۔ ایلیز روز ویلٹ کا یہ کالم ’’My Day‘‘ کے عنوان سے شایع ہوتا تھا اور اس کا شمار اس دور کے مقبول ترین کالموں میں کیا جاتا تھا۔
اسی طرح والٹر لپ مین وہ امریکی کالم نگار تھا جس کا کالم سینڈیکیٹ ہوتا تھا، شہرت اور اثر و رسوخ میں اس کا ثانی نہ تھا اور یہ وہی تھا جس نے کالم نگاری کے شعبے کا اہم ترین انعام ’پلٹزر پرائز‘ 1962 میں حاصل کیا ۔ اسی طرح ’لاس اینجلز ٹائمز‘ کے آرٹ بک والڈ کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ سیاست اور سماجی مسائل کے بارے میں جس کے طنزیہ جملے ایک ایسے زمانے میں امریکیوں کو ہنساتے اور ان کے دل کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بنتے تھے جب پوری قوم جھنجھلاہٹ اور بے سمتی کا شکار تھی۔
پچھلے دنوں انگریزی میں لکھنے والی تیس اہم خواتین کالم نگاروں کی فہرست نظر سے گزری جن میں 1889 میں پیدا ہونے والی ایلیز روز ویلٹ جس کا میں اوپر تذکرہ کر چکی ہوں، جو سفارت کار، امریکی صدر کی بیوی، حقوق انسانی کی سرگرم کا رکن تھی اور جس کا شمار اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا عالمی میثاق لکھنے والوں میں سر فہرست ہے۔ اس فہرست میں وہ آٹھویں نمبر پر ہے۔
ساری دنیا میں صحافت کے عروج کے ساتھ ہی جہاں اخبار سیاسی ، سماجی اور مفاد عامہ کے معاملات پر اپنے تجزیوں اور تبصروں کے ذریعے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ، ملکی انتخابات کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی کامیابی یا ناکامی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں وہیں کالم نگار بھی کسی ملکی یا بین الاقوامی معاملے کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کی رائے بناتے یا اسے بدلتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سماجی ناانصافیوں کے خلاف کالم نگاروں نے ایک بہت مشکل جنگ لڑی ہے۔
پاکستان میں بھی مزدوروں ، بچوں ، عورتوں اور پچھڑے ہوئے طبقات کے حقوق سے متعلق جان کاری اور بیداری میں کالموں نے بڑا کام کیا ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق یا عدلیہ کی آزادی کے بارے میں جو شاندار لڑائی گزشتہ برسوں میں لڑی گئی اس وقت اپنے قارئین کی رائے بنانے میں بعض کالم نگاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اب سے کچھ برس پہلے اقلیتوں کے حقوق یا پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اس کے بنیاد گزاروں کے غلط اقدامات پر معمول سے ہٹ کر لکھی جانے والی تحریروں کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن یہ کالموں کی دین ہے ۔
جس میں اب قرار دادِ مقاصد ، مسئلہ کشمیر، مشرقی پاکستان میں مظالم، بلوچستان میں فوج کشی، جنرل ضیاء کے دور کے سیاہ قوانین اور مذہب کے نام پر بنائے گئے امتیازی قوانین کے علاوہ دیگر نازک اور اہم موضوعات پر کھل کر بات ہوتی ہے۔غرض جہاں عدم روادار عناصر کا خوف کچھ کالم نگاروں کے آڑے آتا ہے، وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو بے خوف ہوکر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس