ایمانداری: اچھی زندگی اور انجام کے لیے سب سے مطلوب صفت

ایمانداری (انصاف، استحقاق، شفافیت اور احساس ذمہ داری) زندگی میں خدا کو مطلوب سب سے اعلی قدر اور ہر آن طرح طرح کے اتار چڑھاؤ سے گزرنے والی دنیا میں توازن کی واحد مضبوط ترین ضمانت ہے۔ زندگی کا سارا حسن، کشش، وقعت اور افادیت دراصل ایمانداری میں پنہا ہیں۔ انسان کی زندگی اور وجود میں موجود سب سے بڑی خوبی ایمانداری ہے جبکہ ایمانداری کا سب سے بلند اور معیاری درجہ وہ ہے جو معاملات اور اخلاقیات میں نظر آئے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ "کسی کی اچھائی یا برائی کا اندازہ عبادات میں اضافے سے نہیں بلکہ معاملات میں درستگی سے لگایا کریں”۔ امت مسلمہ کو وجود میں آیے ساڑھے چودہ صدیاں بیت گئے ہیں لیکن آج ہمارے معاملات اور اخلاقیات کا معیار اتنا گرا ہوا ہے کہ جس کو دیکھ کر اقوام عالم، حقیقت یہ ہے کہ کوئی کشش اور وقار محسوس نہیں کرتے، ان کو ہمارے اجتماعی کردار اور رویوں میں خالق کائنات کی منشاء نظر آجائے، وہ ہمیں محض ایک "قوم” خیال کرنے کے بجائے آللہ کی نمائندہ "ملت” اور اس کے طرف بلانے والے سمجھے، ان میں ہمارے حوالے سے اعتبار اس قدر بڑھے کہ وہ اپنے تنازعات کے تصفیے کے لیے اقوام متحدہ یا عالمی عدالت انصاف کے بجائے امت مسلمہ کی جانب دیکھنا ذیادہ بہتر سمجھیں لیکن عملی حالت یہ ہے کہ دوسروں کے تنازعات کا تصفیہ تو کیا خود ہم سے ہمارے بے شمار تنازعات حل ہو رہے ہیں نہ ہی حل ہونے کی کوئی امید نظر آرہی ہے۔

ایمانداری محض ایک اخلاقی زیور ہی نہیں، بلکہ کسی بھی قوم کی معاشی خوشحالی کی سب سے بڑی ضامن ہے۔ جب معاشرے کے ہر فرد اور ادارے میں دیانت داری کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے تو معیشت کے تمام پہیے بلا رکاوٹ گھومنے لگتے ہیں۔ سرمایہ کار کو یقین ہوتا ہے کہ اس کی سرمایہ کاری محفوظ ہے، تاجر کو اعتماد ہوتا ہے کہ اس کا حق اسے ملے گا، اور صارف اس بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ اسے حقائق کے مطابق معیاری اشیا مل رہی ہیں۔ جھوٹ، کرپشن، رشوت ستانی اور بدعنوانی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی دیواریں ہیں، جو صرف ایمانداری کی تلوار سے ہی گرائی جا سکتی ہیں۔ ایک دیانت دار اور محفوظ معاشرہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے خوشحالی کے دروازے کھول سکتا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ایمانداری کی شاہراہ پر گامزن ہوں تو اس کی بنیاد ہمیں تعلیمی اداروں سے رکھنی ہوگی۔ آج ہمارے تعلیمی نظام کا المیہ یہ ہے کہ وہ ڈگریاں تو دیتا ہے لیکن کردار سازی سے عاری ہے۔ امتحانات میں نقل جیسی لعنت، سفارش سے نمبروں کا حصول، اور ڈگریوں کے تجارتی بنیادوں پر فراہمی نے نسل نو کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ محنت اور ایمانداری کے بغیر بھی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے نصاب میں ایمانداری کے عملی پہلوؤں کو شامل کرنا ہوگا اور اساتذہ کو خود اس کی زندہ مثال بننا ہوگا۔ کیونکہ جو سبق عمل سے نہ ملے، وہ محض الفاظ کا پلندہ بن کر رہ جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے کی اجتماعی ذہنیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بیشتر میڈیا ڈراموں، پروگراموں اور خبروں میں جھوٹ، فریب، سازش اور بے ایمانی کے واقعات کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ ایمانداری کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا ایسے کرداروں اور واقعات کو نمایاں کرے جو ایمانداری کے مثبت ثمرات کو اجاگر کریں۔ سچے تاجر، دیانت دار افسر، اور بے لوث خدمت گار افراد کی کہانیاں اور احوال عام ہوں تاکہ عوام، خصوصاً نوجوانوں کے سامنے ایمانداری کے روشن اور کامیاب نمونے فراوانی سے موجود ہوں۔

ایمانداری کا بول بالا تب ہی ممکن ہے جب معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہو اور ہر شخص کے لیے قانون یکساں طور پر لاگو ہو۔ جب طاقتور اور بااثر افراد محفوظ سمجھا جائیں اور ان کے لیے الگ قانونی نظام ہو تو عوام کا قانون اور اخلاقیات پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس واقعہ سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ آپ نے اپنے مخالف سے مقدمہ جیتنے کے لیے قاضی کے سامنے عام شہری کی طرح پیشی دی۔ یہی وہ عمل ہے جو عوام کے دلوں میں انصاف کے نظام کے لیے اعتماد اور ایمانداری کے لیے محبت پیدا کرتا ہے۔

ہم اکثر یہ کہہ کر مسئلے سے نظریں چرا لیتے ہیں کہ”پورا نظام ہی خراب ہے، ہم کیا کریں؟” یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کوئی بھی نظام افراد ہی سے مل کر بنتا ہے۔ اجتماعی انقلاب کا آغاز ہمیشہ فرد کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ ہر شخص کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ایمانداری کو اوڑھنا بچھونا بناے گا، چاہے اسے فوری فائدہ نہ ہو یا وقتی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ گھر میں، دفتر میں، بازار میں، ہر جگہ سچ بولنا، امانت میں خیانت نہ کرنا، اور دوسروں کے حقوق ادا کرنا ہی درحقیقت وہ پیمانے ہیں جو مل کر پورے معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو مضبوط بناتے ہیں۔ جب ہم خود تبدیل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے حالات بھی بدل دے گا۔

کتنی افسوس کی بات ہے کہ آج جھوٹ، کرپشن، اخلاقی بحران، بے ایمانی اور بد اعتمادی ایسی خرابیاں ہماری بین الاقوامی شناخت بن چکی ہیں۔ روز کوئی ایسا گند ہمارے ہاں دنیا والوں کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے جو ہمارے کردار اور اخلاقیات کے دھجیاں ہوا میں بکھیر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں، اسلامی دنیا کا کوئی اعتبار نہیں۔ یاد رکھیں ہم ایمان کے دعوں سے آللہ کے منشاء کو دیکھنے اور اسے عمل میں لا کر دکھانے کے پابند ٹھہریں ہیں۔ ہمیں علم، انصاف، فلاحی کردار، سائنس و ٹیکنالوجی، طب، مالی اور انتظامی نظم و نسق اور اخلاقی اقدار کے فروغ میں اپنا کنٹریبیوشن بڑھانا ہوگا تاکہ ہم نکمے اقوام کی صف سے نکل کر باوقار اور ذمہ دار اقوام کے دائرے میں جگہ پالیں، ہم مانیں یا نہ مانیں دنیا کو ہمارے تعلیمی، مالیاتی، طبی اور انتظامی صلاحیتوں پر قطعاً کوئی اعتبار نہیں۔

ایمانداری محض ایک "مقدس عنوان” نہیں بلکہ ایک "بنیادی ضرورت” بھی ہے۔ ایمانداری پر صرف آخرت کا دارومدار ہی نہیں وہ تو ہے ہی بلکہ اس دنیا کو بھی روشن، خوشحال، محفوظ، پرامن اور دیانتداری سے آراستہ کرنے والی نعمت بھی ہے۔ صرف ایمانداری میں وہ طاقت موجود ہے جو دنیا میں ہر طرح کی خرابیوں اور غلاظتوں کے سامنے دیوار بن جائے۔ جس بدامنی، کرپشن، بدکرداری اور اخلاقی گراوٹ سے آج پوری دنیا کی چیخیں نکل رہی ہیں ان کے سامنے ایمانداری سے کامیابی کے ساتھ بندھ باندھا جاسکتا ہے۔ ایمانداری دنیا اور آخرت دونوں میں "حسنہ” سے ہمکنار کرنے والی بنیادی ضمانت ہے، اس کی پیدائش اور بڑھوتری اقوام اور افراد دونوں کے لیے ترجیح اول ہونی چاہیے، اس کے بغیر دنیا کو درست ٹریک پر لانا ممکن ہی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے