امریکا میں مقیم ایک پاکستانی الیکٹریکل انجینئر نے کینسر کی پیشگی تشخیص کے حوالے سے ایک آلہ تیار کرلیا ہے، جو اس موذی مرض پر قابو پانے کے حوالے سے اہم کامیابی ہے۔
آرلنگٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر سمیر اقبال نے حال ہی میں نیچر سائنٹفک رپورٹس پیپر میں اپنی ٹیم کے نتائج پیش کیے۔
سمیر اقبال نے کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں وہ امریکا چلے گئے اور وہاں انھوں نے پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کی اور پھر 2007 میں یونیورسٹی آف پیورڈو سے پی ایچ ڈی کیا۔
اس کے بعد سے سمیر اقبال یونیورسٹی آف ٹیکساس سے وابستہ ہیں ۔ان کا تیار کردہ آلہ نینو ٹیکسچرڈ والز کے استعمال سے حقیقی وقت میں انسانی خلیوں کے رویئے کی جانچ کرتا ہے۔
سمیر اقبال کے مطابق ان کی ٹیم نے انسانی جسم میں عضلات کی مختلف پرتوں (لیئرز) کا مشاہدہ کیا اور ایک ایسی چیز بنانے کا فیصلہ کیا جو بالکل ان پرتوں جیسی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ایک ایسی نینوٹیکسچرڈ وال (دیوار) بنانا تھا، جو خون کو یہ دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائے کہ یہی اصل ٹشو (عضلات) ہیں۔
اقبال نے بتایا کہ ہم نے پیشگی تشخیص کا آلہ بنانے کے لیے خلیے کی دیوار کی وراثتی خصوصیات کو استعمال کیا اور کینسر کے خلیوں نے اس وقت بالکل مختلف طریقے سے برتاؤ کیا جب وہ نینو ٹکسچرڈ وال کے ساتھ مس ہوئے، انھوں نے رقص کرنا شروع کر دیا۔
ان رقص کرتے خلیوں کی مدد سے ڈاکٹروں کو کینسر سیلز کی تشخیص میں مدد ملے گی اور موجودہ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کینسر کے مزید جلد علاج میں مدد ملے گی۔
سمیر اقبال کے مطابق ان رقص کرتے کینسر خلیوں کو مزید بڑھنے سے پہلے ہی دریافت کر لینا کینسر کے علاج میں ایک اہم پیش رفت ہے، ہمارے آلے میں یہ کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔