ادبی محفل کا نام بڑی بے ادبی سے لے رہی ہوں، معذرت، مگر معذرت بھی کاہے کی! آج اسلام آباد میں مادری زبانوں کے اس فیسٹیول میں الو ہی تو بول رہے تھے، دھیان کی درستگی مطلوب ہے جناب، میرا اشارہ اس ادبی فیسٹیول کے ادیبوں کی نہیں خالی کرسیوں کی جانب ہے.
ملک بھر میں ادبی محفلیں سج رہی ہیں، کراچی کے لٹریچر فیسٹیول کی رونق تو دیدنی ہے. اچھے کام کی دیکھا دیکھی یہاں اسلام آباد میں بھی امریکی امداد(یو ایس ایڈ) اور اسلام آباد کے لوک ورثہ کے زیر اہتمام مادری زبانوں کا لٹریچر فیسٹیول منایا جا رہا ہے.
فیسٹیول کیا ہے مادری زبانوں کے ٹوٹتے بکھرتے ادب کا سوگ ہو جیسے.. سفید قمیضیں پہنی خالی کرسیاں مقامی ادب کے ماتم میں آئی تھی. میں کبھی نشستوں کی ایک لائن میں بیٹھتی، اکیلے مضحکہ خیز لگ رہی تھی پرس اٹھا کر اس قطار میں چلی آئی جہاں ایک انکل تشریف فرما تھے، میں پرس اٹھایا اور اٹھتے ہی بیٹھ گئی، کیا کرتی سیکڑوں کرسیوں کی خالی قطاروں میں بیٹھے وہ بزرگ بھی جا چکے تھے.
فیسٹیول میں سب سے زیادہ رش جہاں تھا وہ بس اسٹیج ہی تھا جس پہ پاکستان کے طول و عرض سے آئے درجن بھر مقامی ادیب موجود تھے.
ادب میرے دل میں بسا ہے مگر دماغ پہ اک ناہنجار صحافی کا قبضہ ہے ادبی فیسٹیول کی حد درجہ بے قدری کو دیکھ کر سوال کلبلانے لگے، نظریں منتظمین کو ڈھونڈنے لگیں، میں نے گلے میں کارڈ لٹکا دیکھ کر اک نوجوان سے اگلوایا "میاں اس فیسٹیول کا کسی کو معلوم بھی تھا کہ نہیں، یہاں تو سب بولنے والے ہیں سننے والا کوئی نہیں” لڑکا جھینپ کے بغلیں جھانکنے لگا ہلکی آواز میں منمنایا "ہم نے تو بہت تشہیر کی پتا نہیں کیوں کوئی نہیں آیا”، اسٹیج پہ اس وقت گلگت سے آئے مقامی شاعر اپنی مادری زبان "شینا” میں شعر سنا رہے تھے یقین جانیے شعر پہ شعر ختم ہو رہا تھا اور داد دینے والا مجمع نہ تھا.
ہال کے اندر جاری لٹریچر فیسٹیول میں شام غریباں منائی جارہی تھی مگر ہال کے باہر اسی لوک ورثہ کے احاطے میں نوجوانوں کے قہقہوں کی گونج، گول گپے کے اسٹال پہ رش، پاپ کارن کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، مادری زبانوں کا ادب نوجوانوں کو ہال کے اندر لانے میں کامیاب نہ ہوسکا.
اسلام آباد جہاں میں نے خوب لہکتے مہکتے سیاسی جلسوں کی گرما گرمی دیکھی ہے وہاں ایسی ادبی نشست کا ویران ہو نا قابل افسوس ہے، ورنہ پردیسیوں کے اس شہر میں کیا پشتو، براہوی، سرائیکی، شینا، بلوچی، دری،. بلتی بولنے والوں کی کمی ہے.
میں فیسٹیول کی نیوز کوریج کرنے گئی تھی زیر لب بڑبڑاتی رہی "عفت! دانسو سا پیکج پھوڑنا تھا نا، اب ان خالی کرسیوں کی خبر کون چلائے گا، لاہور لٹریچر فیسٹیول میں بنگالی بولنے والے ٹیگور کی بیٹی شرمیلا آئی ہے، واہ واہ بھی بہت ہے خبر تو وہی چلے گی، مگر اسلام آباد میں پاکستان کی مادری زبانوں کی یتیمی کا مرثیہ کون پڑھے گا”.
سامنے دیکھا معروف شاعر انور مسعود کے صاحبزادے، مشہور صحافی عمار مسعود بہت تیزی سے ہال کی جانب بڑھ رہے تھے جیسے مشاعرے کے قیمتی لمحات گنوا نہ دیں، میں نے اندر کی کہانی گوش گزار کردی کہ جناب تعداد درجن بھی ہوجائے تو جو چور کی سزا وہی میری، عمار صاحب کو سماعت پہ شبہ ہوا، ہم ساتھ چل دیئے. چپ کا روزہ سنا ہے؟ وہاں چپ کا مشاعرہ جاری تھا. جامشورو سے آئے شاعر اپنا کلام پڑھ رہے تھے.
شکر پڑیاں کے دامن میں ساکت کھڑے اس لوک ورثہ کا ہال پاکستان میں مادری زبانوں کی زبوں حالی کا عینی شاہد بن رہا تھا.
اس بے رنگ لٹریچر فیسٹیول سے واپسی پہ بے دلی رہی، اک عجیب سا خیال گمان میں آن دھمکا، یہ میلہ ہماری ماؤں کی زبان کا تھا، جس طرح ہمیں اپنی ماں اور دھرتی ماں مقدم ہے ویسے ہی مادری زبان بھی.. مگر مادری زبانوں سے اتنی بے اعتنائی بتاتی ہے ہم اس گود کو بھولتے جا رہے ہیں جس نے ہمیں پہلی بار "ماں” بولنا سکھایا.