تین چار سوالات ہیں، جو کراچی کے حوالے سے گردش میں ہیں،…. کیا ایم کیو ایم کو ایک بار پھر توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے؟ 92ءمیں بھی یہی سب کچھ ہوا، ایم کیو ایم سے کچھ لوگ الگ ہوئے، آپریشن ہوا، مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو کچھ فرق نہ پڑا، کیا اس بار بھی وہی ہو گا؟ یہ جو لوگ سامنے آئے ہیں، کیا یہ دھلے دھلائے ہیں؟ سب سے بڑھ کر وہی سوال کہ یہ لوگ جو آج بول رہے ہیں، پہلے ان کا ضمیر کیوں نہیں جاگا تھا؟
مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا دونو ں جگہوں پر یہی سوال بار بار اٹھائے جا رہے ہیں، ان پر ہر کوئی اپنے اپنے انداز، طبع اور میلان کے مطابق رائے دے رہا ہے۔ بعض ستم ظریف تفنن طبع کے طور پر گرہ لگا دیتے ہیں‘ تو کوئی چشم نم کے ساتھ تئیس چوبیس سال پرانی کہانی کو یاد کر رہا ہے۔ جوابات مشکل نہیں، معمولی سی سیاسی اور صحافتی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ بعض سوال جواب حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ کنفیوژن پیدا کرنے کے لئے اٹھائے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد اس قدر گرد اڑانا ہے کہ مجرموں کے چہرے نہ پہچانے جا سکیں۔
پہلی بات تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایم کیو ایم کو توڑنے کی کوشش نہیں، اس کا تاریخ سے رشتہ جوڑنا غلطی ہو گی۔ کراچی میں پچھلے چند دنوں سے جو کچھ ہو رہا ہے، مصطفیٰ کمال کی آمد سے ڈاکٹر صغیر کی پریس کانفرنس تک‘ یہ سب کچھ ایم کیو ایم کے اندر، کراچی اور لندن میں بیک وقت برپا شدید اضطراب کا نتیجہ ہے۔ کراچی میں قتل و غارت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ حکومت یا کسی ریاستی ادارے نے شروع نہیں کیا تھا۔ پچھلے پانچ چھ برسوں میں کراچی میں دس پندرہ ہزار سے زائد افراد قتل کر دیے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سپریم کورٹ نے کراچی میں مسلسل کئی روز تک اس لاقانونیت کے حوالے سے سماعت کی‘ اور پھر تفصیلی رولنگ دی کہ تینوں بڑی جماعتوں (ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی) بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا گیا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ موجودہ حکومت نے کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دے کر آپریشن کی ہدایت کی۔
ابتدا میں آپریشن ٹی ٹی پی کے جنگجوﺅں کے خلاف تھا‘ تو ایم کیو ایم اس کے حق میں تھی، جب اس کے ٹارگٹ کلر زد میں آئے تو واویلا شروع ہو گیا، مگر آپریشن ایک خاص رفتار سے بڑھتا رہا‘ اور آج کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت حد تک بہتر ہو چکی ہے۔ دہشت گرد گروہوں کا زور ٹوٹ گیا اور اب یہ ممکن نہیں کہ صرف سیکٹر انچارج اور یونٹ انچارج کے ذریعے پورے سیاسی عمل کو یرغمال بنا لیا جائے۔ اس کے ساتھ انگلینڈ میں عدالتی عمل آگے بڑھتا رہا۔ الطاف حسین کے گھر پر چھاپے پڑے، لاکھوں پاﺅنڈ برآمد ہوئے، جن کے بعد منی لانڈرنگ کیس بھی دائر کئے گئے، عمران فاروق قتل کیس کی گرہیںکھلتی گئیں اور اس کا کھرا قائد تحریک کی طرف گیا۔ چند انتہائی اہم افراد نے سکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے اعترافات کئے ، بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے نے ایک خصوصی ڈاکومنٹری چلائی، جس میں بہت کچھ کھل کر کہہ دیا۔ جس کسی کو بی بی سی کی وہ فلم دیکھنے کا موقع ملا ہو (پاکستانی چینلز نے اسے دکھایا تھا)، انہیں الطاف حسین کے گرد تنگ ہوتے پھندے اور ایم کیو ایم کے اندر جاری توڑ پھوڑ کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔
تیسرا عمل جسے قدرت کا مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں، وہ الطاف حسین کی اپنی شخصیت کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شدت اختیار کر جانا ہے۔ صحت کی خرابی، مشروب مغرب کا بے محابا استعمال، مسلسل اعصابی تناﺅ یا جو بھی دیگر وجوہ تھیں…. نتائج خوفناک برآمد ہو رہے تھے۔ بے ربط اور لایعنی تقریریں کرنا تو پرانا وتیرہ تھا، مگر اب انتہا ہو گئی۔ روزانہ ایسے بیانات جاری ہوتے، جن کی کوئی تُک ہوتی نہ موقع محل۔ بے وقت خطابات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ تھا۔ رات کے دو ڈھائی بجے لوگوں کو گھر سے جگایا جاتا، کبھی چار پانچ بجے صبح کا وقت چُنا جاتا اور رابطہ کمیٹی کے اراکین سمیت خاص خاص کارکن نائن زیرو جمع ہو کر خطاب سنتے۔ یہ سب لوگ گھنٹوں حیران پریشان بیٹھے رہتے، کسی کو اونگھنے یا جماہی تک لینے کا یارا نہ تھا۔ اپنے قریبی ساتھیوں کی بار بار، مسلسل تذلیل کی جاتی، کئی بار جذباتی واسطے دے کر، طعنے دے کر انہیں کارکنوں سے پٹوایا بھی گیا۔ تذلیل اور تحقیر کرنے کا کوئی طریقہ ایسا نہیں تھا جو آنجناب نے لندن میں بیٹھ کر اپنے وفاداروں پر نہ آزمایا ہو۔
پچھلے ڈیڑھ دو برسوں میں یہ تینوں عمل آگے بڑھتے گئے، اب یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والے ہیں۔ عمران فاروق کیس اور منی لانڈرنگ کیسز بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ جو شخص پچھلے تیس بتیس برسوں سے قیادت کی کرسی سے چپکا تھا، اس کی صحت کے بارے میں کسی ناشدنی خبر کے حوالے سے افواہیں، خبریں عروج پر پہنچ گئیں۔ ایم کیو ایم کے اندر ناراض، ناخوش عناصر کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ ادھر کراچی میں یہ واضح ہو گیا کہ اگر جرم کو سیاست سے الگ نہ کیا گیا تو سیاسی جماعتیں اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔ یہ وقت قیادت کا تبدیلی کا تھا۔ اگر قیادت مخلص اور دانشمند ہوتی تو ازخود پیچھے ہٹ کر سیاسی چہروں کو نمایاں کرتی۔ ایسا نہ ہو سکا، تو پھر پارٹی کے اندر سے رنجیدہ، تذلیل سے دکھی اور دیوار پر لکھی تحریر پڑھنے والے لوگوں میں سے چند ایک تو کھڑا ہونے ہی تھے۔ خاص کر جب ہتھیار کی دہشت اور ہیبت ہوا ہو گئی، اختلاف کر کے زندہ رہنا اور سیاسی جدوجہد کرنا ممکن نظر آنے لگا، تب ٹوٹ پھوٹ ہونا فطری امر تھا۔
آئیے اس مفروضے پر غور کریں کہ آخر اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو کیوں توڑے گی؟ اسے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ڈیل کرنا زیادہ بہتر اور آسان کام ہے۔ ان پر یہ الزام رہا ہے کہ ہر مشکل وقت میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتے ہیں۔ ویسے بھی ڈاکٹر عمران فاروق کو مبینہ طور پر قتل کرا کر الطاف حسین نے وہ بدترین غلطی کی، جس نے ان کا تمام اثاثہ تباہ کر دیا اور برطانیہ میں بحفاظت اور سکون سے رہنا ان کے لئے ناممکن ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے لئے الطاف حسین سے مذاکرات کرانا، اپنی بات منوانا آسان کام ہے۔ ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی میں موجود نشستیں، کراچی، حیدر آباد کے بلدیاتی اداروں پر کنٹرول اور کراچی میں منظم طریقے سے لوگ اکٹھے کرنے کی قوت ہر دور کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے نہایت سازگار اور مفید آپشن ہے۔ پرویز مشرف نے ایسا ہی کیا تھا، کئی سال تک ایم کیو ایم کو فری ہینڈ دیا‘ اور پھر ان کی غیر مشروط حمایت سے لطف اندوز ہوئے، جبکہ شہر کراچی بھی بظاہر پُرسکون اور پُرامن رہا، ترقیاتی کام بھی بہت سے ہوئے۔ آخر اب ایسی کیا بات ہو گئی کہ سب الٹا ہو گیا؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کی قیادت میں منظم اور طاقتور ہے۔ پوسٹ الطاف حسین منظرنامہ کچھ واضح نہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ مائنس الطاف حسین ایم کیو ایم کس حد تک مضبوط رہے گی؟ متبادل قیادت کتنا ووٹ بینک اکٹھا کر پائے گی اور کیا کراچی میں امن قائم رہے گا؟ ٹکڑے ٹکڑے ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے تو قطعی مفاد میں نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص سے ڈیل آسان ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ مختلف اور متضاد موقف رکھنے والے مختلف دھڑوں کو اکٹھا کیا جائے۔ پھر ایم کیو ایم کمزور ہوتی ہے تو اس سے کراچی میں مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور کسی حد تک پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب قومی جماعتیں ہیں، جن سے اسٹیبلشمنٹ یا غیر سویلین قوتوں کے لئے ڈیل کرنا آسان نہیں۔ ان کی نسبت ایم کیو ایم سے ڈیل زیادہ آسان اور پُرکشش آپشن ہے۔
ایم کیو ایم ہمیشہ سے مذہبی عناصر کے خلاف رہی ہے، اس جماعت کا مزاج ایک خاص انداز سے سیکولر رہا ہے، مذہبی شدت پسندی، طالبانائزیشن کے یہ سخت مخالف رہی ہے۔ ملک بھر میں طالبانائزیشن کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے، ایسے میں ٹی ٹی پی کی مخالف قوتوں کی سپورٹ حاصل کرنا زیادہ آسان ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ماضی کی طرح نہیں کیا جا رہا۔ ایم کیو ایم کے مقدمات میں پھنسے قائد کو قانونی، عدالتی سطح پر ریلیف پہنچا کر مرہون منت کیا جا سکتا ہے، ان کی غیر مشروط حمایت لی جا سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں؟ اس ایک سوال میں ان چاروں سوالات کا جواب موجود ہے، جن کا شروع میں ذکر کیا گیا۔ اس کا جواب کھوجتے ہیں، مگر بات طویل ہو گئی، ایک اور کالم تک جائے گی۔