اک ستمگر نے ۔۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ ایک نجی نیوز چینل میں ملازمت کے دوران مجھے جنگلات اور پودوں کی اہمیت پر مبنی ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے کو کہا گیا ۔ میں نے دن رات کی محنت سے تحقیق کی اور لائبریری سے بھی مدد لی ، غرضیکہ اپنے تئیں بے پناہ کوشش کی لیکن میں آج بھی یہی سوچتی ہوں کہ اس حوالے سے ایک شعر جو میرے استاد محترم نے مجھے سنایا اگر اس رپورٹ میں موجود نہ ہوتا تو اصل محنت ہی وصول نہ ہوپاتی ۔وہ شعر کہنے کو تو دو مصرعوں کا ہی تھا لیکن اپنے اندر گہری معنویت لئے ہوئے تھا ۔

شعر کے مصرعے یقیناًآپ کو بھی پسند آئیں گے کہ

گاؤں کے بوڑھے شجر کا اس نے سودا کر دیا
اک ستمگر نے میرا ماحول سونا کر دیا ۔۔۔

دو تین سال کے بعد آج پھر میرا دل گرین بیلٹس اور پودوں کی اہمیت پر لکھنے کو چاہا تو کچھ اہم حقائق اور بھی نظروں کے سامنے آئے ۔ گرین بیلٹس کی وضاحت جب میں نے آرکسفورڈ ڈکشنری میں دیکھی تو اس کے مطابق یہ ایک ایسی کھلی اور ہوا دار جگہ ہوتی ہے جو شہری علاقوں میں عین درمیان میں موجود ہو وہاں پر کسی بھی عمارت کی تعمیر محدود ہو ، اور کئی جگہوں پر یہ مفہوم بھی ہے کہ عمارت موجود نہ ہو یا اسکی تعمیر کی ممانعت ہو ۔ یعنی گرین بیلٹ وہ مخصوص خطہ اراضی ہے جہاں گھاس اگائی جاتی ہے اور پودے لگائے جاتے ہیں اور یہ سدا بہار پودے مضر صحت نہیں ہوتے ۔ گرین بیلٹس کی تاریخ اتنی پرانی نہیں کیونکہ 1977میں پروفیسر Wangari Maathai نے اس تحریک کا آغاز کیا ، انھوں نے کینیا میں 51ملین سے زائد درخت لگائے اور انھیں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور کینیا کے باشندوں کے لئے بہتر ماحول فراہم کرنے پر 2004میں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا پروفیسر صاحب نے کینیا میں خواتین کی نیشنل کونسل کی درخواست پر بھی کام کیا اور وہ cango basin forest کے حوالے سے جنگلات کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے خیر سگالی کے سفیر بھی مقرر ہوئے ۔

گرین بیلٹس کے لئے پروفیسر صاحب کی خدمات گراں قدر رہیں لیکن آج ہم ان کی محنت کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ بے شک یہ سفر کینیا سے شروع ہوا لیکن چونکہ یہ نظریہ بہت اچھا تھا اس لئے اسے بہت سے ممالک نے اپنا لیا ۔ آج کل ان گرین بیلٹس کو جس طرح تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے تباہ کیا جا رہا ہے اس طرح سے ہم صرف اپنی صحت کو تباہ کر رہے ہیں ،بلکہ مہذب شہری ہونے کا ثبوت بھی نہیں دے رہے ہیں ۔ہم اپنے ماحول کو تباہ کر رہے ہیں ، جی ہاں لاہور میں سالانہ ایک لاکھ پودوں کی قلمیں لگائی جاتی ہیں لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان میں سے کتنے درخت بنیں گے ؟ ( بحوالہ بی بی سی ) ۔

راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبہ جو 45ارب کی لاگت سے مکمل کیا گیا اس میں 400سے زائد چھوٹے بڑے درختوں کی کٹائی کی گئی ہے اس سے بھی بہت سی گریں بیلٹس ضائع ہوئی ہیں ( اگرچہ کہ اب وہاں گرین بیلٹس بنائی گئی ہیں ) ۔

ڈان کی ایک خبر نو دسمبر 2014 کے مطابق راولپنڈی میں راجہ بازار بالکل مچھلی منڈی بن کر رہ گیا ہے جب کہ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ شہر کی خوب صورتی میں اضافہ کرے اور یہاں موجود 36سے زائد پارکس اور گرین بیلٹس کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔ انٹر نیوز کے مطابق کیپٹل ڈیلوپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے ) نے گرین بیلٹس کو کمرشل بنیادوں پر لیز پر دینے کا بھی فیصلہ کیا ۔ ہمارے ایوانوں میں بھی یہ بتایا گیا کہ سی ڈی اے کئی گورنمنٹ اداروں کو گرین بیلٹس پر کار پارکنگ کی سہولت دے رہا ہے اور ان سے باقاعدہ رینٹ وصول کیا جاتا رہا ہے ۔

کچھ تفصیلات جو یہ بتائی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ نیب 4,667، ورلڈ بینک 5,193زرعی ترقیاتی بینک 9,610، بیسٹ وے سیمنٹ 6,165، میریٹ ہوٹل 59,820روپے ماہانہ کرایہ کار پارکنگ کے لئے سی ڈی اے کو ادا کرتے رہے ہیں ۔انگریزی روزنامہ پاکستان ٹوڈے کی خبر کے مطابق سی ڈی اے گرین بیلٹس کی حفاظت کے ضمن میں ناکام ہو چکی ہے اور گرین بیلٹس ختم کرنے میں کئی بڑے افراد کا بھی ہاتھ ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان تک پہنچنا مشکل ہے ۔ گرین بیلٹس کے بارے میں حکومتی دعوے بالکل بے جان اور کھوکھلے ہیں ۔

اس سال بھی ہمارے ایوان بالا کو مطلع کر دیا گیا کہ گرین بیلٹس پر 28ہزار درخت لگائے جائیں گے جن میں 3800بڑے سائز کے پودے ہوں گے ۔۔؛لیکن یہ سب حقائق نہیں ہیں ۔ گرین بیلٹس کی حالت اس لئے بھی خراب ہے کہ یہاں پر ہم سب کھلے عام کوڑا کرکٹ پھینک رہے ہیں ، چپس اور ٹافیوں کے ریپر ، جوس کے خالی ڈبے ، کاغذ کے لفافے ، سگریٹ کے ٹکٹرے جا بجا نظر آتے ہیں ، کوئی گاؤں کا دیہاتی بھولا بھٹکا یہاں آجائے تو اس نے بھی اپنے مویشوں کو یہیں سے چارہ فراہم کرنا ہے ۔ اسی طرح فٹ پاتھ پر روزمرہ استعمال کی چیزیں بیچنے والوں کے لئے بھی یہ ایک اہم جگہ ہے ، تجاوزات کی بھرمار بھی یہیں نظر آتی ہے ۔۔ہم تعمیری سوچ کیوں نہیں رکھتے ؟ کیوں نہیں چاہتے کہ جو سہولیات ہمیں فراہم کی گئی ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں ۔۔اپنے ہی وطن کی املاک کو اپنے ہاتھوں تباہ کر کے واویلا کیوں کرتے ہیں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے