ہمارے خوش زبان مولویوں کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ یہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے مگر آج ساری قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا جب سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ایک ویڈیو میں مولانا حضرات نے بائیولوجی کے وہ وہ پہلو اجاگر کیے کہ ان کے سب چاہنے والے ماشاء اللہ ماشاء اللہ کر اٹھے۔۔ مولانا صاحب نے ہمارے ایک صحافی دوست علی شیر کو ننگی گالیاں دیں تو سارے مریدین بے شک بے شک کہہ کر ان کی بائیولوجیکل گالیوں کو سراہتے رہے۔
میٹرو بس، سی ڈی اے کی فائر فائٹر گاڑیوں اور سڑکوں ، پلوں پر وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی سمیت ان کے تمام خاندان کی شان میں جو قصیدے پڑھے گئے وہ بھی اسلام کے نام پر اس کے بعد تو لوگ عمران خان صاحب اور مولانا طاہر القادری صاحب کی خوش زبانیاں بھی بھول گئے۔
لوگ بہت بے قدرے ہوگئے ہیں یہ اتنی ساری مذہبی شخصیات یہاں ڈیرے لگا کر بیٹھی ہیں ۔۔۔ ان بے چاروں کو تو کبھی اتنی سختی سہنے کی عادت نہیں ، یہ کبھی بھی اپنے حجرے کے علاوہ نکلے بھی اپنی لگژری پراڈو جیپ میں، جیپ سے نکلے تو فائیو سٹار ہوٹل میں کھانا کھایا، واپس آکر حجرے میں حلوہ کھایا اور سو گئے۔
آج یہ لوگ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے نکلے ہیں ، اپنے کارکنوں کے سر پر کفن باندھ کر۔۔۔ ٹھیک جس طرح پروفیسر غفور احمد، مولانا مفتی محمود سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے سربراہان کی طرح جنہوں نے 1977 میں تحریک نفاذ نظام مصطفی چلائی ۔ کئی لوگ شہید ہوئے، تحریک کامیاب ہوئی، مارشل لاء لگا اور پھر ایک نیا اسلامی نظام نافذ ہواجسے یار دوست آج بھی ضیائی اسلام کا نام دیتے ہیں ۔
اس نظام میں پاپ گلوکار عالم گیر کے ایک گانے دیکھانہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں، ایسا نشہ تیرے پیار نے کیا۔۔۔ میں سنسر لگ گیا نشہ کا لفظ کافر جو تھا۔۔ ایسا جادو تیرے پیار نے کیا میں تبدیل ہوگیا۔۔ شکر ہے اس کے بعد ملک سے نشہ ختم ہوگیا۔۔ ہیروئن کا استعمال عام ہو گیا،کیونکہ یہ تو جائز ہے۔
اسی طرح کی اور بھی مثالیں ہیں مثلاًپی ٹی وی پر خواتین کے دوپٹہ اوڑھنے سے ملک میں پردہ عام ہوگیا۔۔۔ لاہور کی ٹبی گلی پر عائد پابندی کے بعد ملک سے جسم فروشی ختم ہوگئی۔
افغانستان سے کافر روس کو ہم نے کافر امریکہ و برطانیہ کی مدد سے مار بھگایا تو وہاں آج دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور ان کے دھارے یہاں پاکستان میں آکر سمندر میں گرتے ہیں۔
ساری دنیا ہمیں مسلمان سمجھتی ہے مگر ہم تمام مسلمان ایک دوسرے کو مسلمان سمجھنے کو تیار نہیں، کفر کے فتوے عام ہیں۔ شیعہ کافر، وہابی کافر، اہل حدیث کافر، دیوبندی کافر اور بریلوی کافر۔۔ ہر مسلمان کافر تو پھر مسلمان کون ہے۔ ممکن ہے اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگ چکا ہوتا جنہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل کیا۔
علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو اپنے شاہینوں کو اس طرح کی نیچی پروازیں کرتا دیکھ کر کتنے مایوس ہوتے۔۔ آج کے حالات دیکھ کر یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ آنے والی نسلوں کو ہم نے ایک جہنم کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔۔۔ جہاں ہر پل ہر لمحہ اس کے دل میں یہی خوف ہوگا کہ کہیں اس کے منہ سے نکلا کوئی لفظ اسے کافر نہ بنا دے۔۔ جہاں وہ مسجد کے امام صاحب کو ایک معزز مذہبی شخصیت نہیں بلکہ ایک عام آدمی سمجھے گا جو ایمان کی باتیں بھی ماں بہن کی گالیوں کے ساتھ بتاتا ہے۔اس کے مسلک سے جو بھی ہوگا وہ صحیح مسلمان ہے مگر دوسرے مسلک کا ہر شخص کافر ہے۔۔
خدا کے لیے ۔۔۔ سوچئے، اگر مسجد کا امام کوئی بات کرے تو آنکھیں بند کرکے اس پر یقین نہ کریں، اگر اچھی بات ہو تو اسے دل پر نقش کریں مگر غلط بات پر خاموش نہ رہیں بلکہ غلط بات کرنے والے کو خاموش کروائیں۔۔
میں یا کوئی اور کسی کو شہادت یا کفر کا فتویٰ دینے کا مجاز نہیں، کون شہید ہے اس کا فیصلہ میرا رب کرے گا۔۔۔ سرعام ننگی گالیاں دینے والا کوئی بھی شخص کسی کو جنت کے ٹکٹ دے سکتا ہے نہ کسی کو شہید قرار دینے کا اختیار رکھتا ہے۔۔ فیصلہ آپ کا۔۔۔