امان اللہ خان کا خواب

مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک دن بھارتی تسلط سے آزادی ضرور ملے گی اورپھر جدوجہد آزادی کی ایک طویل داستان بھی رقم کی جائے گی۔ یہ داستان جب بھی رقم ہوگی تو اس میں ایک باب امان اللہ خان کے بارے میں بھی ہوگا جنہوں نے 1951ء سے 2016ء تک مسلسل 65برس تک آزادی کی جنگ لڑی۔ 26اپریل 2016ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان جموں و کشمیر کی آزادی کا خواب دل میں لئے اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ راولپنڈی میں ان کی نماز جنازہ اور سرینگر میں غائبانہ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت نے یہ ثابت کیا کہ امان اللہ خان کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو بھی ان کی دیانت اور خلوص نیت پر کوئی شک نہیں تھا۔

امان اللہ خان صاحب کے ساتھ میری ذاتی نیاز مندی کی وجہ میرے نانا غلام احمد جراح کے ساتھ ان کا ذاتی تعلق تھا۔ ان کے ساتھ ایک اور نسبت شہید مقبول بٹ تھے جن کا میرے والد کے پاس آنا جانا تھا۔ میرے نانا کا تعلق جموں سے تھا اور قیام پاکستان کے وقت اُن کا شمار مسلم کانفرنس کے قائد چوہدری غلام عباس کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ نومبر 1947ء میں میرے نانا نے اپنے اہل خانہ کو جموں سے سیالکوٹ بھیجا اور خود چوہدری غلام عباس کے عزیز و اقارب کو جموں سے نکالنے کے لئے وہیں رُک گئے۔ جس قافلے میں میری نانی اور میری والدہ شامل تھی اس قافلے پر ہندوئوں اور سکھوں نے حملہ کر کے تمام مردوں کو قتل کر دیا۔ نانی اور کچھ عورتوں نے آخری دم تک مزاحمت کی اور میری والدہ کو لاشوں کے ڈھیر میں چھپا دیا۔ یوں وہ اور اُن کی دو بہنیں بچ گئیں لیکن نانی کو اغوا کر لیا گیا۔ میرے نانا نے سیالکوٹ آنے کے بعد کافی عرصہ تک اپنی شریک حیات کو ڈھونڈا لیکن اُنہیں کوئی سراغ نہ ملا۔

1952ء میں اُن کی ملاقات نوجوان امان اللہ خان سے ہوئی جنہوں نے سرینگر کے ایس پی کالج میں بھارت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور جب وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو سرینگر سے بھاگ کر جموں آئے اور پھر وہاں سے سیالکوٹ آ گئے۔ میرے نانا غلام احمد جراح اور مجید امجد بٹ نے امان اللہ خان کو تعلیم مکمل کرنے کا مشورہ دیا۔ امان اللہ خان ایڈورڈ کالج پشاور اور گورنمنٹ کالج مردان سے ہوتے ہوئے سندھ مسلم کالج کراچی پہنچے اور 1962ء میں انہوں نے ایس ایم لاء کالج کراچی سے ایل ایل بی کر لیا۔ اس دوران اُن کا میرے نانا اور مقبول بٹ سے مسلسل رابطہ تھا اور یہ سب کشمیر کی آزادی کے لئے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد پاک بھارت جنگ ہوئی۔ جنگ کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے بعد امان اللہ خان سیالکوٹ آئے اور یہاں اُنہوں نے عبدالخالق انصاری، جی ایم لون، مقبول بٹ اور میرے نانا غلام احمد جراح کے ساتھ مل کر محاذ رائے شماری بنایا۔ یہی محاذ رائے شماری بعد میں جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ بن گیا۔

امان اللہ خان نے اپنی آپ بیتی ’’جہد مسلسل‘‘ میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے مقبول بٹ، غلام احمد جراح اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سیالکوٹ کے قریب سچیت گڑھ کے علاقے میں جموں و کشمیر کی مٹی ہاتھ میں پکڑ کر قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی مادر وطن کو آزادی دلانے کے لئے زندگی کی آخری سانسوں تک جدوجہد کریں گے۔

امان اللہ خان گلگت بلتستان کے علاقے استور میں پیدا ہوئے لیکن بچپن میں والد کے انتقال کے بعد اپنے ماموں کے پاس وادیٔ کشمیر کے علاقے کپواڑہ میں چلے گئے جہاں انہوں نے پرائمری اور مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک سرینگر سے کیا اور پھر ایس پی کالج میں داخل ہونے کے بعد تحریک آزادی سے وابستہ ہو گئے۔ گلگت بلتستان کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو جموں و کشمیر سے علیحدہ سمجھتے ہیں لیکن امان اللہ خان تادم مرگ یہ کہتے تھے کہ کشمیر یا کشمیری کا مطلب 15اگست 1947ء والی ریاست جموں و کشمیر ہے جس میں لداخ اور گلگت بلتستان بھی شامل تھے۔

مقبول بٹ اور امان اللہ خان کو سیاسی جدوجہد کے ذریعہ کشمیر کی آزادی ممکن دکھائی نہ دی تو دونوں نے تنظیم آزادی فلسطین کی طرز پر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ ان دونوں کا موقف بڑا سادہ اور واضح تھا۔ دونوں کا خیال تھا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس پر پاکستان اور بھارت کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس ریاست کے باشندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کیلئے ہتھیار اُٹھا سکتے ہیں۔ دونوں نے اپنے اس حق کا استعمال کرنے کی کوشش کی تو دونوں کو پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے مجرم قرار دے دیا۔ مقبول بٹ کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا تو وہ جیل توڑ کر پاکستان آ گئے۔ انہیں پاکستان میں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ امان اللہ خان پر سرینگر میں پاکستان کے لئے جاسوسی کا الزام لگا کر مقدمہ قائم کیا گیا اور پاکستان نے انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دے کر ڈیڑھ سال تک گلگت جیل میں قید رکھا۔

1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ اور امان اللہ خان کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ دونوں نے انکار کر دیا۔ 1977ء میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ 1984ءمیں امان اللہ خان کے دوست اور ساتھی مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دیدی گئی جس کے بعد امان اللہ خان مضطرب رہنے لگے۔ اُن کا آغا شاہی اور نیاز اے نائیک کے ذریعے جنرل ضیاء الحق سے رابطہ رہتا تھا۔ امان اللہ خان اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ 1987ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ اختر عبدالرحمان نے کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے اُنہیں مدد کی پیشکش کی اور یقین دلایا کہ وہ خودمختار کشمیر کی مخالفت نہیں کریں گے۔ 1988ء میں جے کے ایل ایف کی مسلح کارروائیوں کا آغاز ہونے کے فوراً بعد جنرل ضیاء الحق اور اختر عبدالرحمان ایک ہوائی حادثے کا شکار ہو گئے۔ نئے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں لیکن امان اللہ خان کے ساتھ اُن کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا خیال تھا کہ جے کے ایل ایف نواز شریف اور شیخ رشید احمد کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں مسلح کارروائیاں کرتی ہے۔ نواز شریف وزیر اعظم بنے تو اُن کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو امان اللہ خان اُن کی کشمیر پالیسی کے بھی ناقد تھے۔ یاسین ملک کے ساتھ اُن کے اختلافات پیدا ہو گئے تھے لیکن امان اللہ خان نے یہ اختلافات ختم کئے۔ 12اگست 2012ء کو یاسین ملک نے رفیق ڈار اور سلیم ہارون کے ہمراہ راولپنڈی میں امان اللہ خان سے ملاقات کی اور پھر دونوں کے گروپ ایک ہو گئے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی جے کے ایل ایف نے مشترکہ طور پر امان اللہ خان کو تاحیات قائد اور یاسین ملک کو چیئرمین بنایا۔

امان اللہ خان نے اپنی زندگی میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین سمیت بہت سے کشمیر زعماء سے ملاقاتیں کر کے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن کشمیر اور پاکستان سے اُن کی محبت کسی شک و شبے سے بالاتر تھی۔ وہ چاہتے تو اپنی زندگی کے آخری وقت کو پُرسکون بنانے کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مسئلہ کشمیر کا ایک حل بھی پیش کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کو متحد کر کے 15سال کے لئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں دیا جائے۔ 15سال کے بعد اقوام متحدہ ریفرنڈم کے ذریعہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر دے۔ بھارت نے اس فارمولے کو مسترد کر دیا تھا۔ بھارت مانے یا نہ مانے لیکن امان اللہ خان جس خواب کو ساتھ لئے اگلے جہان کو سدھار گئے وہ خواب ایک نہ ایک دن حقیقت ضرور بنے گا۔ امان اللہ خان کا نام حریت اور جرأت کی علامت ہے اور دنیا بھر کے حریت پسند اُن کی جرأت پر فخر کرتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے