کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ گروپ کے ترجمان قاری سیف اللہ نے خرم ذکی کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
کراچی میں سماجی کارکن اور سابق صحافی خرم ذکی کی نماز جنازہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر سخت سکیورٹی میں ادا کی گئی جس کے بعد انہیں وادی حسین قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔
آئی بی سی اردو سے گفت گو کر تے ہوئے مقتول کی اہلیہ نے بتایا کہ خرم ذکی کو کالعدم انتہا پسند تنظیموں کی جانب سےدھمکیاں مل رہی تھیں اور خفیہ اداروں نے ان کے شوہر کو ان خطرات سے آگاہ کر دیا تھا. انھوں نے کہا کہ خاندان کو اب بھی خطرہ ہے اور تحفظات ظاہر کرنے کے باوجود سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
خرم ذکی کو گذشتہ شب نامعلوم مسلح افراد نے نارتھ کراچی سیکٹر 11 بی میں ایک ہوٹل کے باہر نشانہ بنایا . واقعے میں خرم ذکی موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ ان کے دوست خالد راو شدید زخمی ہو گئے تھے. خرم ذکی کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سرسید تھانے میں درج کیا گیا ہے۔قتل کے مقدمے میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور اہل سنت والجماعت پاکستان کے صدر علامہ اورنگ زیب فاروقی کو نامزد کیا گیا ہے. مقدمے کے متن میں درج ہے کہ دو موٹر سائیکل سوار افراد نے ان پر فائرنگ کی۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سماجی رہنما خرم ذکی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے. خرم ذکی صحافت کے پیشے منسلک رہے.