ڈیمو کریسی دو ریاستیں تھیں

"ایک دفعہ کا ذکر ہے دو ریاستیں تھیں۔جیسا کہ تاریخ کا وطیرہ ہے کہ ایسی ریاستیں یونان میں ہواکرتی تھیں۔یونان کا حوالہ بات میں وزن میں ڈال دیتا ہے۔سیاست کی بدعت بھی وہی سے شروع ہوئی۔اس سے پہلے نہ تو سیاست ہوتی تھی اور نہ ہی سیاستدان ہوتے تھے۔صرف حکومتیں ہوتی تھیں۔بہترین حکمرانی تھی کرپشن تو ہرگز نہیں تھی لیکن پھر تو یونان درمیان میں آگیا۔”

یہ کوئی بے ربط گفتگو یا لا یعنی خود کلامی کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمنار کی حقیقی روداد کا حصہ ہے،جو جمہوریت اور اس کے نقصانات کے موضوع پر ایک پنج ستارہ ہوٹل میں منعقد ہوا۔اگرچہ بینئر پر لکھا موضوع کچھ اور تھا لیکن سیمنار اسی موضوع پر ہوا۔سامعین میں زیادہ تر مقررین تھے اور ان کا تعلق شعبہ دفاع سے رہا ہے۔ان میں سے بیشتر ٹیلی وژن سکرینوں پہ نظز آتے تھے۔اس تقریب کا اہتمام بھی ایک سابق جنرل کی جماعت نے ایک ایسی تنظیم کی مدد سے کیا تھا۔جس کے بینئر شاہراہ دستور پر دستورساز ادارے کے کام منہ چڑاتے ہیں۔

جرنیلوں سابق بیوروکریٹوں اور کونے کھدروں سے عرصے بعد نکلے صحافیوں نے ماحول کو گرما رکھا تھا۔علی احمد کرد کو نا جانے کس شعبہ میں بلایا گیا تھا اور کچھ ایسا ہی شبہ شاید ہمارے اوپر ہوا۔

سیمنار سے صرف ایک روز قبل ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل سے کال موصول ہوئی کہ چینل ایک سیمنار کا اہتمام کررہا ہے۔خیال تھا کہ ٹیلی وژن چینل ایسے سیمنار کا پروگراموں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، جن میں قومی امور پر گفتگو ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک سیاسی جلسہ تھا جو سیاست اور سیاست دانوں کی دھجیاں اڑانے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔اور اس کے لیے ٹیلی وژن کا چینل استعمال کیا گیا تھا۔

کاروائی البتہ بہت دلچسپ تھی اور بڑے دلچسپ مطالبے بھی سامنے ائے۔جیساکہ 58 ٹو، بی کی بحالی، تا کہ سسٹم کومکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔وزیر اعظم سے رضا کانہ استعفے کی اپیل ۔اقتصادی راہداری کے لیے آنے والے 46 ارب ڈالر کر رکھوالی کے لیے ایک الگ الگ ادارے کی ضرورت اور بیس فیصد ٹی وی اینکروں کی چھٹی جنہیں قومی مفاد کا بلکل لحاظ نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اینکروں کی تبدیلی کا مطالبہ پیمرا سے کیا گیا تھا ورنہ یہ مطابہ کسی اور ادارے سے بھی کیا جاسکتا تھا۔

سیمنار جڑواں شہروں میں پکنے والے لاوے کی حدت سے گرم تھا۔سیاست دانوں،ججوں اور چند صحافیوں پرنشتروں پر نشتر چل رہے تھے۔اور ان سے بچارا غریب اور عام آدمی بھی محفوظ نہیں تھا جو مقررین کے بقول ایک پلیٹ بریانی اور آلو والے نان کے بدلے اپنا ووٹ اور ایمان فروخت کر دیتا ہے اور ذہین، محبِ وطن اور اہل افراد کو ملک کی خدمت کرنے سے روکتا ہے۔

حالانکہ اس بچارے غریب آدمی نے کئی بار اس تہمت کو دھونے کی کوشش کی ہے۔وہ طاقت اور اشرفیہ کی حمایت یافتہ جماعتوں اور ان کے امیدوارں کی ٹرالیوں،ٹرکوں،ویگنوں اور کاروں میں بیٹھ کر پولنگ سٹیشن ضرور جاتا ہے۔ بریانی اور قیمے والے نان بھی کھاتا ہے،لیکن ووٹ کا معاملے میں کافی سیانا ہے ۔اس عام آدمی نے فیکٹریوں میں تیار کردہ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ سے چِت کیا ہے۔

فضائلِ جمہوریت پر گفتگو بھی جاری تھی اور یہ کہ یہ تو محض پانچ سو سال پرانا نظام ہے، یہ ایک آئیڈیل نظام کیسے ہو سکتا ہے؟جس سے امریکہ اور یورپ والے بھی خوش نہیں۔غالباً اشارہ اس طرف تھا کہ یہ ذمہ داری بھی پاکستان کو اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا نا پڑے گی کہ دنیا کو جمہوریت سے بہتر متبادل پیش کرے ۔

بہر حال وہ سمجھانے کہ کوشش کر رہے تھے کہ ڈیمو اور اریسی دو ریاستیں تھیں۔بعد میں اریسی بگڑ کر کریسی ہو گیا۔ڈیمو ایک قبائلی اور دیہی ریاست تھی جو اپنے اجناس کریسی کی مارکیٹوں میں فروخت کرتی تھی۔کریسی کو پسند نہیں تھا کہ سارا منافع ڈیمو کو ملے اس نے ڈیمو سے آنے والے مال پر ٹیکس لگا دیا۔ ڈیمو کو غصہ آیا اور کہا "کریسی کی یہ مجال”۔پھر اس نے کریسی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس پر قبضہ کر لیا۔اس طرح سے ڈیموکریسی وجود میں ائی۔

محمد عامر رانا کا یہ کالم تجزیات آن لائن ڈاٹ کوم پر شائع ہوا . کالم کے لنک پر کلک کیجئے

http://tajziat.com/view.php?id=119

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے