لاہور(ویب ڈیسک) پروگرام کھرا سچ ود مبشر لقمان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے رمضان المبارک کے دوران کروڑوں روپے کی کمائی کو بے نقاب کر دیا گیا، اینکر مبشر لقمان نے بتایا کہ ٹی وی چینل اور اخبارات کس طرح رمضان المبارک میں پیسوں سے نہا جاتے ہیں جبکہ ملازمین کو عید سے ایک دن پہلے صرف تنخواہ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
پروگرام میں بتایا گیا کہ کس طرح ٹی وی چینلز اور معروف شخصیات رمضان کے نام پر کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں ، ریٹنگ کے نام پر ایسی جنگ لڑی جاتی ہے جس میں مذہب کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
پروگرام میں بتایا گیا کہ ٹی وی چینلز حکومت وقت کے ڈیفالٹر ہیں ، کوئی درست اعداد و شمار کے مطابق ٹیکس نہیں دیتا ، ملازمین کے ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے اور موبائل کمپنیاں رنگ ٹونز کی مد میں کروڑوں روپے بناتی ہیں۔
2016 میں یہ کمائی 25 فیصد تک بڑھ جائے گی ، اینکرز کے بالوں کی ڈائی سے لے کر جوتے تک سپانسر ہوتے ہیں ، نعت خواں ایک محفل کے لیے 12 سے 25 لاکھ روپے لیتا ہے ، ٹی وی پروگرامز میں رونا ، ہنسنا سب کے پیسے لیے جاتے ہیں۔
ٹی وی چینلز کمائی کرنے کے بعد پرائیویٹ پروڈیوسرز کا وہ حال کرتے ہیں کہ دوبارہ کوئی پیسے مانگنے کا سوچتا بھی نہیں ، سحری ، افطاری کی دعا سپانسر ہوتی ہے ۔ عوام کو چاہئے کہ سحری اور افطاری کے اوقات میں اپنے روضے کے ثواب میں خلل نہ آنے دیں ، ٹی وی چینلز سے اجتناب کریں۔
پروگرام میں مدعو کیے گئے علمائے دین نے رمضان کے مقدس مہینے میں اوچھل کود ، ناچ گانے کے پروگراموں کو اسلام کی نفی قرار دیا ، مقدس پروگرامز میں گفتگو کے لیے اداکاروں کو مدعو کرنا کہاں کا اسلام ہے ۔ ایسے پروگرامز میں شرکت کرنے والوں عملمائے اکرام بھی قابل عزر ہیں۔
پروگرام میں پرنٹ میڈیا میں اشتہارات کی بھرمار کی بھی بات کی گئی ہے کس طرح اخبارات کے مالکان جادو ٹونے کے اشتہارات فل پیمنٹ پر چھاپتے ہیں جبکہ ملازمین کو تنخواہوں کے لیے خوار کیا جاتا ہے۔ ایسے اشتہارات کی نگرانی کرنے والی آرگنائزیشن بھی ان کے تحفظ پر مامور ہے۔
مبشر لقمان نے مدارس سے بھی پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ہمارے مدارس میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار لڑی جا رہی ہے ، ہمارے ملک میں 80 لاکھ طالبات مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور ان کا رجسٹرڈ بورڈ وفاق المدارس ہے جس میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 30 لاکھ ہے۔
مدارس کے طالبات کے اخراجات کی بات کی جائے تو اگر ایک طالب علم کے کھانے کے 35 روپے بھی لگا لیے جائیں تو روزانہ ایک دن کے 30 کروڑ روپے صرف کھانے کا خرچہ ہے ، ایک سال کھانے کا خرچہ 8 سو ارب روپے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے صرف کھانے کا خرچہ اربوں میں ہے تو اتنی رقم کہاں سے آ رہی ہے۔ نہ ٹی وی چینلز پر کوئی نگرانی ہے اور نہ مدارس کی کوئی نگرانی کرنے والا ہے۔
لیبیا ، عراق ، سعودی عرب اور ایران اپنے اپنے مدارس کو پاکستان میں رقوم بھجوا رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، کیا پاکستان سے ایران میں وہابی مدرسے اور سعودی عرب میں شعیہ مدرسے کو رقم بھجوائی جا سکتی ہے۔ ہم نے پیسے کے لیے اپنے ملک میں پراکسی سنٹر کھول رکھے ہیں۔