مجھے کے پی کے پولیس جیسانظام چایئے۔

پولیس نام ہے ان افراد کی ٹیم کا جو ریاست کی جانب سے با اختیار ہوتے ہیں ریاست میں قانون کے نفا ذ کے لیے ، عام شہری کے مال کی حفاظت، اور سول ڈس آرڈر کو محدود کر نے کے لیے جس میں اختیارات کی طاقت کا درست استعمال شامل. ہے ایک خود مختیار ریاست میں جو اصطلاح عام ہے وہ یہ ہے کہ پولیس کی ذمیداری قانونی طور پر اپنے اپنے علاقے تک محدو د ہوتی ہے اور ریاست کی جانب سے اس کو علاقے میں اپنے اختیار کا استعمال کر تے ہوئے قانون کانفاذکرنا ہوتا ہے پولیس جس کا مطلب ہے (پاسبان ) کے ہیں پاسبان یا ش±رطہ (police)، عموماً سرکاری وکیل یا وکالات جو قانون نافذ کرنے اور قوت کا جائز استعمال کرتے ہوئے عوامی و سماجی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے ذمّہ دار و مختار ہوتے ہے.پاسبان دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “ دربان، چوکیدار، نگہبان، حفاظت کرنے والا” کے ہیں۔ پولیس قوت کا جائز استعمال کرتے ہوئے عوامی و سماجی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے ذمّہ دار و مختار ہوتے ہے پوری دنیا میں مختلف پولیسنگ نظام موجود ہیں لیکن ان سب کا مجموعی مقصد نظم و نسق کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

پولیسنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس کی بنیاد انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ حضور ﷺ کے دور میں پولیسنگ کا نظام موجود تھا گوہ کہ وہ باقاعدہ ڈیپارمنٹ کے طور پر واضع نہیں تھا احادیث مین آتا ہے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ باقاعدہ ایک پاسبان چیف کے طور پر حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔ حضر ت عمر فارق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں باقاعدہ ایک دستہ تھا جو پورے علاقے میں رات گئے گشت کرتا شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنا تا یہ نظام اسلامی حکومتوں کا حسہ تھا صدیوں سے رائج تھا۔ 18 صدی میں جب سر رابرٹ باتھ نے1822 میں ہوم سیکر ٹری کا منصب سنبھالا تو انہوں نے میٹروپولیٹن پولیس ایکٹ 1829 کے تحت ایک کل وقتی، پیشہ ورانہ پولیس فورس کی بنیاد رکھی جس کا مقصد گریٹر لندن کے علاقے میٹروپولیٹن میں امن وامان قائم کرنا تھا جس کو میٹروپولیٹن پولیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کو (پیلرز یا بوبیز ) کہا جاتا ۔پوری دنیا میں اس باوقار محکمے کا وقا ر آج تک قائم ہے لیکن افسوس کے ہمارے پاکستان میں یہ نظام انتہائی اندو ناک حالات سے گزر رہا ہے۔ ہماری پولیس کا نظام ایک ایسا نظا م جس کی مثال شاہد کہ ہمیں ملے۔ پنجاب پولیس ،سند ھ پولی، بلوچستان پولیس اور کے پی کے پولیس اب ایک پاکستان میں چار نظام پولیس رائج ہیں۔ جن کے اپنے اپنے سپہ سالار ہیں پنجاب پولیس، سند ھ پولیس کا نظام دیکھیں تو قانون کی بالادستی کے لیے قائم یہ ادارےکر پشن کے گڑ بن چکے ہیں جاگیرداروں ،سرمایا داروں اور سیاست دانوں کے سرکاری آلہ کار بن ک رہ گئے ہیں۔ جس طرح کا نظام تھانوں میں موجود ہیں یہ جرم کو ختم کرنے کے بجائے جرائم کی استعداد کو بڑھانے کا سبب بن چکا ہے۔

ٹاوٹ مافیا پولیسنگ نظام میں اس بری طرح سراہیت پذیر ہوچکا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔میں نے یہاں تک بھی دیکھا کہ ایک ایس ایچ او اگر کسی تھانےمیں تعینا ت ہوتا ہے تو چارسنبھالنے کے بعد وہ پہلا کام اس علاقے کے ٹاوٹ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کی تلا ش کر تا ہے تاکہ وہ علاقے میں غیر معمولی سرگرمیوں کی معلومات لے سکے اس لیے نہیں کہ خاتمہ کرنا ہے بلکہ اس لیے کہ جناب اب ہم ا? چکے ہیں ہمار ا ریٹ یہ ہوگا۔ اگر ریٹ نہ ملے تو جناب آتے ہی پکڑ دھکڑ اور اسے کے بعد ریٹ سیٹ۔۔یہ پورا ایک چیپٹر ہے جس پر بات ہوسکتی ہے بحر حال اس غیر محفوظ نظام پولیس میں مجھے اس وقت امید کی کرن نظر آئی جب میں خود کے پی کے پولیس کے سسٹم میں سے گزرا۔مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ پاکستان پولیس ہے۔جس طرح درخواست گزار کے ساتھ پولیس کی کوارڈینیشن تھی میں حیرت میں تھا۔ ایک معمولی سا ایس ایم ایس اور انسپکٹر جنرل پولیس کی کال، ایس ایم ایس موصول ہوتے ہی آئی جی کے پی کے ناصر درانی صاحب کی اپنے ذاتی نمبر سے کال موصول کرنا کسی انہونی سے کم نہ تھا یہ حیرت میں ڈال دینے والا معاملہ تھا۔ لیکن اس کے بعد پورا ایک سسٹم متحرک ہوجانا متعلقہ ڈی پی او، ڈی ایس پی ، ایس ایچ اس طرح رابطے میں جیسے میں پاکستان میں نہیں لندن ،دوبئی یا کسی ایسے ملک میں اپنے آپ کو محسوس کر رہا تھا جس میں پولیس کا نظام خود مختیار اور انصاف پر مبنی ہو۔ یقین جانیے میں نے ایک ذاتی مسئلے کے لیے جب کے پی کے کے نظام پولیس کو رابطہ کیا تو میں حیران تھا میرے ساتھ بیٹھے لوگ حیران تھے کہ کیا یہ پولیس سسٹم پاکستان میں ہے۔ جس میں کسیی کے لیے آئی جی خود آن لائن ہو ڈی پی رات گئے تک اپنے ا?فس میں اس لیے موجود ہو کہ اس کے علاقے میں ایک کیس داخل ہوا ایس ایچ متعلقہ چوکی میں رات گئے تک اس لیے بیٹھا ہے کہ نظام کا نفاذ اور انصاف کو معیا کرنا اولین ترجیع ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور دکھ بھی ہو ا کہ دوسری جانب پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں ایک چوکی انچارج کو ملنے کے لیے گھنٹوں عوام تھانے چوکیوں کی نظر ہوجاتے ہیں کے پی کے کے نطام پولیس کو دیکھنے کے بعد میری امیدیں جو دم توڑ چکیں تھی دوبارہ قائم ہوگئیں کہ نہیں اگر سپہ سالار منصف ہوتو ،فرض شناس ہو تو اس کا اثر نیچے تک محسوس ہوتا ہے۔

میں کے پی کی حکومت کو خراج تحسین کم اور آئی کے پی کے ناصر دورانی صاحب کو زیاد ہ اس کا حقدار سمجھتاہوں جنہوں نے پاکستان جیسے ملک میں جس میں پولیس کا محکمہ استحصال ،ناانصافی ،کر پشن اور بد دیانتی کی مثال بن چکا تھا اس میں ایک ایسی پولیسنگ کو متعارف کروانا جس میں شہری سر فخر سے بلند کرکے بلکہ کسی ڈر اور خوف کے انصاف کے حصول کی امید پر بے خوف و خطر پولیس اسٹیشن جا سکتا ہے۔بلکہ متعارف ہی نہیں اس پر عمل درآمد کروا کر ثابت کر دیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں کاش کہ وزیر اعظم پاکستان کے پی کے پولیسنگ نظام کو باقی صوبوں میں رائج کردیں ۔گوہ کہ مسائل ابھی کے پی کے پولیس میں موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی رائی کے دانے کے برابر ہے مجھے پنجاب ،سند ھ اور بلوچستان میں بھی کے پی کے پولیسنگ سسٹم چائیے۔ مجھے ناصر درانی جیسا سپہ سالا ر چائیے۔مجھے وہ پورا نظام چائیے جو کے پی کے میں رائج ہے۔ کے پی کے حکومت سے میرےسو اختلاف اپنی جگہ لیکن مجھے ذاتی تجربے کے بعد کم از کم پولیسنگ سسٹم میں جو تبدیلی آئی اسے ماننا پڑا۔ میں یہ سمجھتا ہوں جو کام اقدام ہے اس کو ہمیشہ خو ش آمدید ک کہنا چاہیے اور اگر وہ عمل نافذ ہوسکے تو اس کو پورے خطے میں نافذ کرنا چایئے نہ کہ سیاسی رنجشوں کی بنیاد پر اچھی اقدام کو بھی ٹھوکر ماردی جائے۔ میاں محمد نواز شریف صاحب کے پی کے پولیس نظام اس وقت پاکستان میں بہتر نظام پولیس ہے اس کو پورے ملک میں لاگو ں کریں۔تاکہ بنیادی ضرورت انصاف عام پاکستانی کو با آسانی مہیا ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے