افغان مہاجرین اور تاریخ

وہ صحافی اور مبصرین جن کا ایمان میری طرح اب تک کمزور نہیں ہوا ہے بہت سنجیدگی سے یہ دعویٰ کرتے پائے جارہے ہیں کہ نواز شریف اتنے بھی بیمار نہیں۔ دل کی چھوٹی موٹی تکلیف ضرور ہوگی مگر اس کا علاج پاکستان میں بھی آسانی سے رعایتی نرخوں پر کروایا جاسکتا تھا۔ وزیر اعظم لندن جاکر بیٹھ گئے ہیں تو اصل مقصد اس کا پانامہ لیکس کی بدولت اُٹھے طوفان سے خود کو اور اپنے خاندان کو ’’کڑے احتساب‘‘ سے بچانا ہے۔ ایسی بچت ہوتی مگر ممکن نظر نہیں آرہی کیونکہ ہمیں مل چکے ہیں عمران خان۔
نواز شریف کی ’’اصل بیماری‘‘ کی دُنیا کے مانے ہوئے ماہرین قلب کی طرح تشخیص کرتے ہوئے اپنے تئیں اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے یہ دعوے دار اس ضمن میں بھی کافی پریشان ہیں کہ وزیر اعظم کی علاج کے نام پر اتنی لمبی غیر حاضری کے دوران پاکستانی ریاست اور حکومت کا نظام کیسے چلایا جلائے۔ آئینی طورپر ہمارے ملک میں کسی قائم مقام وزیراعظم کی گنجائش موجود نہیں کیونکہ وزیر اعظم وفاقی حکومت کا یک وتنہاء ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ ہوا کرتا ہے۔

آئین اور قانون کے عین مطابق اپنی زندگی کا ہر پل گزارنے والے ان صاحب ِ ایمان لوگوں کے خیالات سن کر پہلے مجھے غصہ آیا پھر ہنسی آنا شروع ہوگئی۔ غصہ بس یہ سوچ کر آتا رہا کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایک نہیں بلکہ دو بار آئین توڑنے والے کو بھی ایک پُراسرار بیماری کا علاج ڈھونڈنے کے لئے پاکستان سے باہر جانا پڑا ہے۔ عدالتیں اب ان کو اپنے روبروپیش ہوتا دیکھنے کے لئے اخباروں میں اشتہارات دینے کا حکم صادر فرمارہی ہیں۔ہمارے صاحبِ ایمان لوگوں کی مگر اس طرف نظر نہیں جارہی۔

تھوڑے غصے کے بعد مگر ان صاحبِ ایمان لوگوں کی معصومیت پر ہنسی آنا شروع ہوگئی جو بڑی شدت کے ساتھ یہ دہراتے پائے گئے کہ پاکستان میں کوئی آئین ہوتا ہے۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے بھری سہی، ایک منتخب قومی اسمبلی بھی ہے جس نے اس ملک کا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ منتخب کیا تھا۔ ایسا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ جسے ملااختر منصور کی ہلاکت کے بعد کسی ’’ولی محمد‘‘ کے مارے جانے کی اطلاع دی گئی اور وہ اس اطلاع کو دل وجان سے تسلیم کرنے کو تیار ہوگیا۔ حالانکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے واقعے کے پانچ گھنٹے گزرجانے کے بعد موصوف کو ٹیلی فون کے ذریعے بتادیا تھا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گرائے جانے والے ڈرون میزائل نے افغان طالبان کے امیرکو ہلاک کردیا ہے۔

ایسے بھولے بھالے اور ٹھوس حقائق سے لاعلم رکھے ہوئے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ نے مگر کچھ صحافی مبینہ طورپر خرید رکھے ہیں جو اسے ہمارے آئینی اور جمہوری ملک کا سچ مچ کا وزیر اعظم بناکر دکھاتے رہتے ہیں۔ ان صحافیوں کی خدمات کا لفافوں کی باقاعدہ ترسیل کے ذریعے معاوضہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مجھ پر بھی ایسے لفافے ملنے کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ وصول مگر ابھی تک ایک بھی نہیں کیا۔ حالانکہ بات کھل جانے کے بعد یہ میرا حق بنتا ہے۔ چونکہ میرے لئے لفافہ نہیں آیا اس لئے نواز شریف کی بیماری کی بنیاد پر چھڑی بحث میں اپنی کوئی رائے دینے کو ہرگز تیار نہیں۔ کمزور دل وایمان رکھنے کے باعث البتہ اپنے ربّ سے یہ فریاد ضرور ہے کہ نواز شریف کو علاج کے بعد وطن لوٹنے میں آسانیاں عنایت فرمائے۔

آج اس کالم کے ذریعے ویسے بھی میں نے اپنی قوم کو یاد دلانا تھا کہ چند ہی برس پہلے تک ہم اپنے آپ کو دُنیا کے سامنے افغان مہاجرین کے حوالے سے انصارمدینہ کی صورت بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر افغان، پاکستان میں پناہ گزین ہونے پر اس لئے مجبور ہوئے تھے کہ ان کے ملک پر لادین سوویت یونین کی فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔ ہم نے ان کے وطن کوجہاد کے ذریعے آزاد کروانے کے عمل کی پشت پناہی کی۔ ہم نے جرأت ایمانی دکھائی تو امریکہ کو بھی تھوڑی سی غیرت آگئی۔ وہ جہاد اوراس کی وجہ سے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے افغانوں کی امداد کے لئے ہر سال ڈالروں سے بھرے سوٹ کیس بھیج دیتا۔ سٹنگرز جیسے جدید ترین میزائل بھی ان ہی دنوں میدانِ حرب میں متعارف ہوئے۔ امریکہ کے بعد سعودی عرب نے بھی مسلم اُمہ کے غم میں امریکی سرمائے کے برابر رقوم فراہم کرنا شروع کردیں۔

افغان مہاجرین کی آئو بھگت میں انصار مدینہ کی تقلید کرتے ہوئے ہم کس حد تک گئے۔ اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں۔ جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کی بدولت سیاسی رہ نمائوں کو صحافیوں سے بات چیت کی اجازت نہیں تھی۔ وہ چھپ چھپاکر کسی نہ کسی دوست کے گھر صحافیوں کو چوروں کے کسی گروہ کی طرح جمع کرکے دل کی بات کہتے۔ ان کی کہی بات مگر اخباروں میں اس لئے چھپ نہ پاتی کہ ہر اخبارپریس کو بھیجنے سے پہلے سنسر ہونے پی آئی ڈی کے دفتر جایا کرتا تھا۔

اسی زمانے میں لیکن ہر ہفتے افغان مجاہدین کا کوئی نہ کوئی رہ نما اسلام آباد کے کسی بڑے ہوٹل میں اپنے کلاشنکوف بردار محافظوں کی معیت میں گھنٹوں صحافیوں کے سامنے روح پرورخطاب فرماتا۔ ان رہ نمائوں کی تصاویر اور بیانات دوسرے دن کی صبح ہر اخبار کے صفحہ اوّل پر نمایاں جگہ پاتے۔

1980ء کی دہائی سے کئی برسوں تک پاکستان میں آئوبھگت کرواتے مہاجرین کو مگر اب اس ملک میں تخریب کاری کی تمام وارداتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ ہماری ریاست یہ تہیہ کئے نظر آرہی ہے کہ افغانوں کو ہر صورت ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔کب اور کیسے؟ اس سوال کا واضح جواب اگرچہ ابھی تک کسی بااختیار ریاستی یا حکومتی ترجمان نے فراہم نہیں کیا ہے۔ چونکہ اس ضمن میں ابھی تک کسی ’’ڈیڈ لائن‘‘ کا تعین نہیں ہوا اس لئے جان کی امان پاتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت یاد دلانا ضروری ہوگیا ہے کہ اٹک پار کرلینے کے بعد افغان اپنے وطن خال ہی خال لوٹتے پائے گئے ہیں۔

کہانی بہت پرانی ہے اور خاصی طویل بھی۔ داستان گوئی سے پرہیز کرتے ہوئے یاد بس یہ دلانا ہے کہ محمود غزنوی کے بعد سے افغان قبائل لشکروں کی صورت میں برصغیر پاک وہند پر مسلم سلاطین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے کئی صدیوں تک یہاں تشریف لاتے رہتے۔ دلی پہنچ جانے کے بعد ان دلاوروں کو ہمارے سلاطین سرمایہ اور اسلحہ مہیا کرنے کے بعد کسی نہ کسی خطے کا منصب دار بناکر وہاں روانہ کردیتے۔ جمنا اور اس کے کناروں پر بسی آبادیاں تو مکمل طورپر مسلم سلاطین کے زیرنگین ہوچکی تھیں۔ گنگا کے کناروں پر جو بنگال تک پھیلے ہوئے تھے معاملات البتہ کئی صدیوں تک سلاطین کے قابو میں نہ آپائے۔

ان علاقوں پر قابو پانے کے لئے وسطی ایشیاء سے آئے دلاوروں سے رجوع کرنا پڑتا۔جن میں سے اکثریت افغانوں کی تھی۔ اسی وجہ سے جرنیلی سڑک بنانے والا شیر شاہ سوری جب فرید خان تھا تو بِہارکا منصب دار تھا۔ بِہار سے پہلے یوپی کے مشرقی حصوں میں جو ہمالیہ تک پھیلے ہوئے ہیں ایک وسیع وعریض جنگل ہوا کرتا تھا۔ ان جنگلوں کے ’’وحشی‘‘ باسیوں کو ’’مہذب بنانے‘‘ کے لئے زیادہ تر افغان دلاورہی استعمال ہوئے تھے۔ روہیل کھنڈ، ریاست ٹونک رام پوراوربھوپال وغیرہ افغانوں کی بسائی نوآبادیاں ہی تو تھیں۔

جو افغان 1980ء کی دہائی سے پاکستان آچکے ہیں انہیں یہاں کا باقاعدہ شہری بنانے کے علاوہ کوئی اور طریقہ میسر ہی نہیں۔ جانے ان افغانوں میں ڈاکٹر قدیر خان جیسے کتنے ’’محسنِ پاکستان‘‘ چھپے بیٹھے ہیں جنہیں یومِ تکبیر کے روز ہم نے بے پناہ عقیدت واحترام سے یاد کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے