اسلام، خلافت اورجمہوریت

خلیفہ کی اصل خَلَفَ ھے،یعنیsuccessor ،،بعد میں آنے والا،، نبی کریمﷺ تو اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے خلیفۃاللہ فی الارض تھے،،یا داوودُ انا جعلناک خلیفہ فی الارض، یعنی خدائی اختیارات کو اللہ کی اجازت سے نافذ کرنے والا، خلافت کے لفظ کے ساتھ ھمارا رومانس بہت پرانا ھے ،اوراس کا نام سنتے ھی ایک مخصوص ماحول کا تصور پیدا ھوتا ھے ، نعمتوں کی ریل پیل ،، دینےوالے ھیں مگر لینے والا کوئی نہیں ملتا،، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ھوتی،، آپس میں پیارمحبت اور ایسی یگانگی کہ جنت بھی شرما جائے ، کوئی جھوٹا اس خلافت میں نہ پایا جاتاھے،نہ قابلِ برداشت ھے ،کسی کو دنیا کی طلب ھی نہیں ،بلکہ اپنا حصہ بھی دوسروں کو دےدیتے ھیں،، دنیا وھاں مچھر کے پر سے بھی حقیر جانی جاتی ھے ،اور جس کے گھر میں جاتی ھے وہ خوش ھونے کی بجائے پریشان ھو جاتا ھے کہ اس سے جان کیسے چھڑائے.

ھم یہ ساری توقعات ایک خلافت سے رکھتے ھیں،،اس لئے خلافت کے حامی ھیں،، اور دیگر جو بھی نام ھیں،ان کو خلافت کی سوکن سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ھیں،، ھم یہ سمجھتے ھیں کہ اگر آج پاکستان میں خلافت نافذ کر دی جائےاور صدر کی بجائے اس عہدے کا نام خلیفہ رکھ دیا جائے تو اچانک ایمانداری اور بے نفسی کی ایسی گھٹا اٹھے گی کہ سیاستدان بغیر طلب کے اپنے اثاثے بیرونِ ملک سے منگا منگا کر کلمہ چوک اور آبپارہ میں غریب عوام میں بانٹنا شروع کر دیں گے ،، کراچی میں قتلِ عام فوراً رک جائے گا اور لوگ ایک دوسرے سے اس طرح رو رو کر معافیاں مانگ رھے ھوں گےکہ شارع فیصل پر ٹریفک جام ھو جائے گا،، کیونکہ سارا مسئلہ جمہوریت کا ھے،، سارے عذاب اس نے ڈال رکھے ھیں،، سارے مسلمانوں کو کرپٹ اس جمہوریت کے نام نے کر رکھا ھے،ورنہ تو یہ بھولے مانس ایسے تھے کہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں،، یہ بات کبھی کبھی اخبارمیں بھی پڑھنے کو ملتی ھے ،کہ لڑکی کا رشتہ نہیں ملتا ؟ تو نام بدلی کر کے ” خ” کے حرف سے شروع ھونے والا نام رکھیں ! ان شاء اللہ رشتے ساون کی گھٹاؤں کی طرح امڈ امڈ کر آئیں گے،، مگر نام اتنا تباہ کن ھو سکتا ھے کہ پوری امت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دے،،یہ بات پہلی دفعہ اتنی سنجیدہ لگی ھے.

حقیقت یہ ھے کہ اللہ پاک نے قران میں ایک مسلمان اجتماعیت کے لئے ذمہ داریوں کا تعین بھی کر دیا ھے ،، اور یہ اصول بھی طے کردیا ھے کہ اس اجتماعیت کا سربراہ مسلمانوں کے مشورے سے بننا چاھئے ،، مگر نہ تو حاکم کا نام خلیفہ تجویز کیا گیا ھے،،اور نہ ھی یہ طے کیا گیا ھے کہ یہ مشورہ کس طرح لیا جائے گا،، نہ ھی نبی کریمﷺ نے اس کے لئے کوئی طریقہ فائنل کیا اورنہ ھی صحابہؓ نے طے کیا کہ یہ مشورہ کس طرح ھو گا،، حاکم چننے میں عوام کس طرح شریک ھوں گے،، عوام شریک ھونگے بھی یا نہیں ھوں گے یہ بھی طے نہیں کیا گیا؟؟؟؟ نبیﷺ نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا ، یہ مسلمہ بات ھے، اور اس کو کسی دلیل سے رد نہیں کیا جا سکتا،، اب صحابہ نے اپنا حاکم چنا تو اس کا نام خلیفۃ رسول اللہ رکھا،یعنی اللہ کے رسولﷺ کے بعد آنے والا(successor ) اس کے بعد والے کو جب خلیفۃ رسول اللہﷺ کہا گیا تو انہون نے تصحیح کر دی کہ وہ تو ابوبکرؓتھے،میں خلیفۃ ابوبکر ھوں، میرے لئے امیر المومنین عمرؓ کافی ھے ،حضرت عثمانؓ امیر المومنین ٹھہرے،، گویا یہ تو ترجمہ ھے ” بعد میں آنے والا” کا اس میں تقدس تب ھی آئے گا جب آنے والا مقدس ھوگا،،اب زرداری خلیٖفہ ھے مشرف کا اور مشرف خلیفہ تھا نواز شریف کا، تو کیا آئیں میں تبدیلی کر کے صدر کو خلیفہ کہنے سے،،یہ سارے لوگ مقدس ھو جائیں گے؟

میرا خیال یہ ھےکہ اسلامسٹوں کی اکثریت کا یہ ھی خیال ھے !

ایک مسلمان اجتماعیت ھونی چاھئے،،، اس کاایک حاکم ھونا چاھئے،،، اور وہ حاکم شوری یا مشورے سے چنا جانا چاھئے،،یہ ھیں تین اصول جو قرآن و حدیث سے ھمیں ملتے ھیں،،اب ان میں سے ایک ایک پر بات ھو گی،،تب تک ساتھی بتائیں کہ مشورے کی کیا صورت ھو گی،،حاکم کو چننے میں عوام کو کس طرح شریک کیا جائےگا،یا خلیفہ کا حلقہ انتخاب کیا ھو گا ؟؟ کیا سارے عوام ھی ایک خلیفہ چنیں گے یا کچھ مخصوص خصوصیات کے حامل لوگ ھی اس انتخاب میں رائے کا اظہار کر سکیں گے ،،؟

قرآن حکیم نے سورہ الحج کی جس آیت میں مسلمان اجتماعیت کی ذمہ داریوں کا تعین کیا ھے،وہ پورے اسلامی معاشرے کا فرض قرار دیا ھے ،کہ جہان مومنوں کو زمین میں تمکن عطا ھو جائے تو ” اقاموا الصلوۃَ،،، وہ سارے نمازکو قائم کریں گے،،، و اٰتواالزکاۃَ،، اور وہ سارے زکوۃ ادا کریں گے،، وَ امروآ بالمعروفِ،، اور سارے معروف کو پروموٹ کریں گے،،و نہوا عن المنکر،، اور سارے منکر کی بیخ کنی کریں گے،، قرآن اس کو سیدھا سیدھا مسلمان معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری اور فریضہ قراردیتا ھے اور جمع کا صیغہ استعمال کرتا ھے،، مگر ھم نے اس کو خلیفہ کے ساتھ جوڑ دیاھے کہ،،وہ ڈنڈے سے نماز پڑھائےگا،،اور ڈنڈے سے زکوۃ وصول کرے گا،اور ڈنڈے سے نیکی کرائےگا ،،اور ڈنڈے سے برائی کا رستہ روکے گا،، جب تک وہ نہیں آتا تب تک ھمارا حال وھی رھےگا،جو ماسٹر اپنی کلاس میں نہ آئے تو بچوں کا ھوتا ھے،وہ پڑھنا فرض سمجھتے ھی نہیں،بلکہ پورا پیریڈ لڑائی مار کُٹائی سے بھرپور گزرتا ھے،،

ایک طرف امت خلافت کے انتطارمیں بے عمل ھو کر بیٹھی ھے،جسطرح فورمین کے بغیر لیبر بیٹھی ھوتی اور،،دوسری طرف سارےعلماء چودہ صدیوں میں یہ ھی طے نہیں کر پائے کہ خلیفہ کا الیکٹورل کالج کیا ھو گا،،ساری امت چنے گی،؟ یا کوئی خاص ملک چنے گا،، پورا ملک چنے گا،یا کچھ مخصوص لوگ چنیں گے،،وہ مخصوص لوگ،یعنی شوری، یا پارلیامنٹ خود کیسے منتخب ھو گی؟؟؟ خلیفہ کی صفات کیا ھوںگی،کیا اس کا قریش میں سے ھونا ضروری ھے؟؟ ھر مسلمان کی بیعت برابر ھو گی یا علامہ اقبال اور نتھو میراثی کی بیعت میں فرق ھو گا؟ کیا کوئی مقدس شہر ھو گا،جس کی بیعت کو سارے ملک کی بیعت سمجھا جائے گا،،جیسے مدینے کی بیعت پر خلیفہ چن لیا جاتا تھا،،اور باقیوں سے صرف حلفِ وفاداری لیا جاتا تھا،؟؟ پاکستان مین وہ مقدس شہر کونسا ھوگا،، بری امام والا اسلام آباد ،، یا داتا کی نگری والا لاھور، یا ملتان پیراں پُرشریف یا منگھو پیر والا کراچی،،آخر کسی شہر کو کس بنیاد پر مقدس مانا جائے گا؟؟

اب عملی مثال کی طرف آئیں تو پہلی خلافت ھی آئیڈیل حالات اور آئیڈیل طریقے سے وجود میں نہیں آئی،نہ کوئی مشترکہ اجلاس بلایاگیا،،جس میں رولز اینڈ ریگولیشنز پڑھ کر سنائے گئے،،نہ کسی کو آپشن دیا گیا.

انتہائی ایمرجینسی میں سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کی تعزیت کی مجلس میں،ایک گرما گرم اجلاس ھوا،،جس کی روئیداد پارلیمانی ریکارڈسےحذف کرانے کے قابل ھے اور علماء مثلاً مفتی زین العابدین سجۜاد میرٹھی اور مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی نے اپنی تاریخِ ملت میں اس کو حذف کیا ھے ! البتہ محمد حسین ھیکل نے جو بیان کیا ھے،، وہ تو اللہ معاف کرے بس بیان کرنے کے قابل نہیں ھے.

نبیﷺ کی رشتہ داری کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ،ائمۃمن قریش "امام قریش میں سے ھو گا،، اب پتہ نہیں یہ شرط اب بھی ھے یا ختم ھو گئی ھے،، البتہ جب حضرت علی نے یہ بات بڑے زوردارطریقے سےحضرت ابو بکر سے فرمائی کہ جس دلیل سے آپ نے انصار سے بیعت لی ھے،نبیﷺ کی قرابت کے واسطے سے،تو کیا ھم بنو ھاشم اس میں تم سے زیادہ خلافت کے حقدار نہیں تھے؟ تو صدیق ؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،،سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت لینے کے بعد اگلے دن جو کارراوئی مسجد میں ھوئی اس کی حیثیت صرف اعتماد کا ووٹ لینے کی تھی،، کوئی انتخاب نہیں ھوا تھا،،بنو ھاشم سارے کےسارے اس عمل سے الگ تھے،،ان کی کوئی نمائندگی سقیفہ میں نہین تھی،،وہ نبیﷺ کی تدفین کے انتظامات میں لگے ھوئے تھے،،اور فارغ بھی نہیں ھوئے تھے کہ خلافت کے قائم ھونے کی اطلاع ملی،، یہ بجا کہ انصار کی مجلس میں خلافت زیرِ بحث آ گئی تھی،، مگر کیا یہ وھی انصار نہیں تھے،جنہوں نے اپنے گھر مہاجرین میں بانٹ دیئے تھے،؟ گویا پہلی خلافت ھی متنازعہ تھی،بنو ھاشم کی جلیل القدر ھستیوں نے بیعت نہیں کی تھی،،اگرچہ ابوبکر صدیقؓ نے خود کو نہ صرف اس خلافت کا حقدار ثابت کیا بلکہ انبیاء کی سی استقامت کے ساتھ آے والے مسائل کا سامنا کیا اور مرتدین اورمانعین زکوۃ کے خلاف عزیمت کا جبلِ احد ثابت ھوئے ،مگر بات یہ چل رھی ھے کہ جب اتنےاچھے لوگوں میں خلافت کا کوئی ضابطہ متعارف نہ کروایا جا سکا اور پہلی خلافت ھی تنازعےکا شکار ھو گئی تو ،، اب ھمارے ان ورق ورق پھٹے ھوئے، شاخ شاخ کٹے ھوئے،نفرت و عداوت کے سرچشمے،ایک دوسرے کو کافر مرتد کہنے والے علماء اور مذھبی طبقوں کے پاس کونسی گیدڑسنگھی ھے،جس سے یہ غیر متنازعہ خلافت قائم کر لیں گے؟ ذرا عوام سے وہ طریقہ کار توشیئر کریں کہ خلیفہ کیسے چنیں گے،،

ابوبکر صدیقؓ نے عمر فاروقؓ کو خلیفہ مقررکیا،،حالانکہ نبیﷺنے کسی کو نہیں کیا تھا ! پھر جب فارقؓ زخمی ھوئےتو فرمایا” اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کروں تو میرے پاس مجھ سے اچھے انسان کا اسوہ موجود ھے،یعنی ابوبکرؓ کا،،، اور اگر نامزد نہ کروں تو ابوبکرؓ سے بھی اچھے کا اسوہ موجود ھے،یعنی نبی کریمﷺ کا،،، میں عشرہ مبشرہ میں سے بقایا پرمشتمل کمیٹی بناتا ھوں،، وہ آپس میں طے کرلیں کہ کیا کرنا ھے،کس کو بنانا ھے”اب ذرا سوچئے ھر خلافت کے قیام کا طریقہ دوسرے سے کتنا مختلف ھے،، اب آج کے علماء وہ کونسی کمیٹی بنائیں گے جو اپنے میں سے خلیفہ چنے گی؟ جو قوم کو ایک متفقہ عید نہیں دے سکتےوہ ایک متفقہ خلیفہ کیسے دیں گے؟ صرف خلافت کے نعرے لگانے سے خلافت قائم نہیں ھوتی بلکہ کوئی روڈ میپ دیجئے کہ آپ اس قوم کے ساتھ کیا کریں گے اور کس طرح کریں گے؟؟

پھرحضرت عثمانؓ کی خلافت کا خاتمہ جتنےپراسرار حالات مین ھوا اور اس کے بعد جیسی کچھ خلافت حضرت علیؓ کی قائم ھوئی سب کو پتہ ھے،، بھٹو صاحب نے ڈھاکہ فوجی ایکشن پر کہا تھا،” شکر ھے پاکستان بچ گیا ھے”اسی طرح 86000 مسلمان شہید ھو گیا،،مگر شکر ھے خلافت بچ گئی،، صحابہؓ کی موجودگی میں،عشرہ مبشرہ کی موجودگی مین،،اصحابِ بدر کی موجودگی میں،،خلافت اپنے قیام کے لئے 86000 ھزارجانیں لے گئی ھے،، علماء بتائیں آج کے ریٹ سے کتنا خون چاھئے خلافت کے قیام میں؟؟ خاص کر اس اصول کے بعد” کہ ھم صحابہؓ میں سے کسی کی بھی نیت پر شک نہیں کرتے،،وہ انکی اجتہادی غلطی تھی۔۔اور اجتہادی غلطی پر مجتہد کو اکہرا ثواب ملتا ھے،جب کہ جو صواب پر ھوتا ھے اس کو دوہرا ثواب ملتا ھے،،” یعنی حضرت معاویہؓ کو قتلِ عام پر فی بندہ سنگل ثواب مل رھا تھا کیونکہ اھلِ سنت کے مطابق وہ خطا پر تھے،،مگر حضرت علیؓ فی بندہ ڈبل ثواب لے رھے تھے کیونکہ وہ حق پر تھے،،اور ایک دن میں 30،000 بندہ شہید کیا گیا!

اتنے بہترین لوگوں میں خلافت پر یہ کشت و خون ھوا !! علماء آج کا ریٹ بتا دیں ؟ کیسے خلافت قائم کریں گے؟ ضوابط کا خاکہ شائع کریں اور وہ بھی اتفاقِ رائے سے،،تا کہ جمہوریت کی گاڑی سے خلافت کی ٹرین پر چھلانگ لگائی جا سکے !

نبی کریمﷺ کواللہ پاک نے اس امت کے لئے اسوہ بنا کر بھیجا ھے اور آپﷺ نے اللہ کی زیرِ ھدایت دین مکمل طور پر علمی اور عملی دونوں صورتوں میں پہنچا کر نبیوں کے بعد سب سے بہترین لوگوں سے اس کی گواھی لے لی ھے اور اللہ کو گواہ بنا لیا ھے،، آپ سے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کیاجاتا تھا ،آپ خاموشی اختیار فرماتے ،تا آنکہ آپ کو رب کی طرف سے جواب القاء کیاجاتا،، نبیﷺ نے حلت اور حرمت کے سارے فیصلے فرما دیئے ھیں اور اب اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں،، اب قیاس سے ھی کسی چیز کو جائز یا ناجائز کہا جائے گا،، قرآنِ حکیم نے حلت اور حرمت کو محفوظ کر لیا ھے اور افراد کے ذاتی علم و تقوے کو حلت اورحرمت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا !

قرآن کی مروجہ تفسیر نبیﷺ نے نہیں فرمائی،،اورحلت و حرمت کے علاوہ کسی تکوینی امور کی تفسیر کو نہیں چھیڑا اور اسے آنے والی نسلوں کے علمی ارتقاء پر چھوڑ دیا اور یہ امتِ مسلمہ پر نبی کریمﷺ کا بے پایاں احسان ھے ،، ورنہ نبیﷺ کی تفسیر کے بعد عام لوگوں کے لئے مجال بہت محدود ھو جاتی !اور مسائل پیدا ھوتے،، اس کا اندازہ آپ کواس بات سے ھو جائے گا کہ نبیﷺ کریم کےحتمی تفسیر نہ کرنے کے باوجود لوگوں نے اپنے زمانے کی تفاسیر کو ھی فائنل تفسیرسمجھا اور اس کے خلاف کو خلافِ اسلام سمجھا اور اس سے اختلاف کرنے والے کو گمراہ قرار دیا گیا، اپنے رسم و رواج کو اسلام اور تقوے کی سند عطا کر کے لوگوں کو اسے ماننے پر مجبور کیا گیا، چاھے وہ دباؤ،عہدے کا ھو یا سماجی ھو،، مگر عقلوں پرقدغن لگانے کا ھر دستیاب ذریعہ آزمایا گیا ،اگر کسی نے خود جبر نہیں کیا تو اس کےچاھنے والے،اور حواریین نے اپنے شیخ اور ،مرشد، اور استاد کو حرف آخر گردانا،،

اب اس وقت جو مسئلہ زیرِ بحث ھے وہ اسلام میں شورائی نظام کی عملی صورت ھے،،کہ قران نے مسلمانوں کے معاملات مشورے سے طے کرنے کا اصول دیا اور اس کی کوئی فائنل عملی شکل طے نہیں کی اور نہ نبی کریمﷺ نےاپنے عمل سے اس کی تفصیل طے فرمائی ، آپ نے عملاً کسی کو اپنا خلیفہ نہ بنا کر،رستہ کھُلا چھوڑ دیا کہ عمرانی ارتقاء کے ساتھ جو صورت بھی مشورے کے طور پر طے کر لیجائے گی،،اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ! اصل میں مذھب کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ھونے جا رھا تھا کہ نبی سے نبی ٹیک اوور نہیں کر رھا تھا،،

کیونکہ نبوت ختم ھوگئی تھی،، پہلے یوں ھوتا تھا کہ پہلا نبی دوسرے نبی کو چارج دیتا تھا،اور وہ نبی پھر آگے مختلف علاقوں میں اپنے نمائندے مقررکرتا تھا، جن کو کبھی نقیب،تو کبھی حواریین کہا جاتا تھا،، مگر اب پہلی دفعہ ایک نبیﷺ رخصت ھو رھے تھے،مگر چارج لینے کو کوئی نبی دستیاب نہیں تھا،کیونکہ نبوت کاادارہ ختم ھو گیا تھا،، اب اگر نبیﷺ کسی کو بھی خلیفہ مقرر فرماتے تو خدشہ یہ تھا کہ بعد والے اس کو نبی قرار دے دیتے، یا حکومت کو اس کا آسمانی حق سمجھ کر ھمیشہ اس کے خاندان میں مستقل کر دیتے،،لہٰذا نبیﷺ نے اپنی ذاتی خواھش کے باوجود اس سےاجتناب فرمایا اور حاکم کا انتخاب قیامت تک مومنوں کی صوابدید پر چھوڑ دیاغالباً اس میں اللہ پاک کی رضا شامل تھی،،

اگرچہ آپ نےحضرت عائشہؓ سے اپنی اس خواھش کا اظہار فرمایا کہ میرا جی چاھتا تھا کہ میں تمہیں کہوں کہ اپنے باپ اوربھائی کو بلاؤ تا کہ میں لکھوا دوں،ایسا نہ ھو کہ کوئی طمع کرنے والا حکومت کےمعاملے میں طمع کرے،، مگر پھر میں نے سوچا کہ اللہ اور اس کا رسول اور مومن سوائےابوبکرؓ کے کسی اور پر راضی نہ ھوں گے( بخاری) مگر یہ بات میاں بیوی کی پرسنل ڈسکشن کی حد تک تھی،نہ تو نبیﷺ نے مجمعے میں اس کااظہار فرمایا اور نہ ھی ابوبکرؓ کی خلافت کے وقت اس حدیث کو دلیل بنایا گیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے