قائد وحدت،،احساس مسؤلیت کا اعلی نمونہ

دنیا کا ہر انسان کامیابی کا خواہاں ہے ؐ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کامیابی اور کامرانی سے گزر جائے ۔ ناکامی اور نامرادی کا گزر اس کی زندگی میں نہ ہو ، یہ خواہش فطری ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کامیابی احساس مسؤلیت سے جڑی ہوئی ہے ۔ ان کے درمیان ناقابل انفکاک اتصال پایا جاتا ہے ۔ کامیاب زندگی کے حصول کے لئے احساس مسؤلیت سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ بشریت اس بات پر گواہ ہے ، کہ ابتداء آفرینش سے لیکر آج تک کامیابی کا سہرا ان افراد کے سر سجھا ہے، کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں احساس مسؤلیت کا مظاہرہ کیا ۔ جنہوں نے صرف اپنے شکم کی فکر نہیں کی ۔ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اجتماع اور قوم کے بارے میں سوچا ۔ احساس مسؤلیت ایک بہت بڑا وظیفہ ہے، جس سے کوئی بھی انسان مستثنی نہیں ۔ احساس مسؤلیت پیدا کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے ، کہ انسان فکری طور پر بیدار ہو ۔ فکری بیداری سے مراد یہ ہے ، کہ انسان اپنی غافل فکر کو غفلت کی نیند سے بیدار کریں ۔ اپنےخوابیدہ ضمیر کو جگائیں خود کو اجتماعی ذمہ داریوں سے آذاد مطلق نہ سمجھیں ، بلکہ اس اعتقاد کو اپنے ذہن میں راسخ کریں کہ اللہ رب العزت نے بے شمار نعمتوں سے ہمیں نوازا گیا ہے ۔

بے پناہ صلاحیتوں اور توانائیوں سے ہمیں مالا مال فرمایا ہے، تو یہ ساری نعمات یونہی بغیر کسی مقصد کے تو یقینا نہیں دی ہے ، اس لئے کہ ایک عام ہماری صنف اور نوع کا انسان اپنی خداداد قوت عقل کے حکم کے مطابق بدون غرض کسی دوسرے انسان کو ( خواہ وہ اس کا کتنا قریبی ہی کیوں نہ ہو ) بے ارزش ایک چھوٹی سی چیز دینے کے لئے حاضر نہیں ہے ، ایک چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے کے لئے راضی نہیں ہے تو خالق عقل وجہاں کے افعال وعطیات بطریق اولی باہدف ہیں ۔ ان اہداف ومقاصد کی جانب خالق کائنات نے اپنی کتاب میں جابجا مکتوبا” اور رہبران حق کے توسط سے شفاھا” تصریح فرمائی ہے ۔ ان مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے احساس مسؤلیت کو اپنے اندر پیدا کرکے اس کو پروان چڑھانا نہایت ضروری ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کائنات کا پورا نظام مسؤلیت کی بنیاد پر قائم ودائم ہے ۔ انسان کی زندگی عبارت ہے مسؤلیت سے ۔البتہ مسؤلیت کی نوعیت مختلف ہے ۔ سارے انسانوں کے دوش پر ایک ہی طرح کی مسؤلیت سوار نہیں ، بلکہ مسؤلیت میں کمی وبیشی ، سنگینی وسبکی کے اعتبار سے نمایاں فرق پایا جاتا ہے ۔ سب سے ذیادہ ذمہ داری ، سنگین مسؤلیت اہل علم ودانشمندان کے دوش پر سوار ہے۔ بدون تردید انسان کی زندگی میں علم ، معرفت اور آگاہی سے بڑھ کر بافضیلت وباشرافت کوئی چیز نہیں ۔ معرفت ہی سعادت دارین کی کنجی ہے ۔علم کے ذریعے ہی سے معاشرہ انسانی میں افراد بشر کو آسودگی ، خوشحالی ، عدل وانصاف اور پر امن زندگی کا میسر آجانا ممکن ہے۔ غرض علم نور بذاتہ و منور لغیرہ ہے ۔ لیکن ثقل اکبر وثقل اصغر نے معرفت وعلم کے جو فضائل بیان کردیے ہیں ،ان کا مصداق قرار پانے کی صرف اور صرف وہی اہل علم اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں جو احساس مسؤلیت کا خوگر ہوں ، جو ہمارے موجودہ علماء کرام میں خال خال ہی نظر آتا ہے ۔ جس کی واضح مثال پاکستان کے مختلف مقامات پر عرصہ دراز سے تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے شیعہ کشی کے واقعات اورظلم ستم پر علماء کی خاموشی ہے – ظالموں اور قاتلوں کی انسانیت سوز قبیح حرکتوں کے ردعمل میں ہمیشہ تقیہ اور مصلحتوں کا سہارا لے کر سکوت اختیار کرنا ہے ۔

پاکستان میں مذہب تشیع بہت بڑا طاقتور مذہب ہے ۔ علمی اور افرادی قوت سے مالا مال مذہب ہے۔ لیکن ہمارا یہ بڑا المیہ ہے کہ ہم دشمنوں کے جھانسے میں آگئے ۔ ہم مختلف گروہ میں تقسیم ہوگئے ۔ در نتیجہ ہم نے اپنی عظیم اجتماعی طاقت کو مفت وبلامعاوضہ دشنوں کو تحفے میں پیش کردیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم پاکستان میں طرح طرح کے ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ ہماری جان ، مال اور عزت سے دشمن کھیل رہے ہیں ۔ ہمارے گھر ویران ہورہے ہیں۔ ہمارے بچے یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ پاکستان میں نہ ہمارے علماء محفوظ ہیں اور نہ ہمارے سادات ۔ نہ ہمارے ڈاکڑ بچے ہوئے ہیں اور نہ ہمارے ذہین ولائق معلمین ۔ نہ ہمارے فلاحی وتنظیمی کام کرنے والوں کو امنیت حاصل ہے اور نہ ہی ہمارے عزاداروں کو ۔ بلکہ ہمیں چن چن کر مارا جارہا ہے ۔ ہمارے جوانوں کو ، ہمارے قیمتی افراد کو،قومی سرمایوں کو ہمارے دشمن بے دریغ ہم سے چھین رہے ہیں ۔ کیا پھر بھی ہمیں چپ کا روزہ رکھنا قرین عقل و انصاف ہے ؟ کب تک ، کہاں تک ؟

کیا پھر بھی قومی مشکلات ومسائل کو حل کرنے کے لئے متحد ہوکر عملی اقدامات کرنے کے بجائے ہمیں اپنااپنا الگ گروپ بنا کر اسی کی تقویت کے لئے جان فشانی کرنا مناسب ومنطقی ہے؟ علی ای حال یہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں سوچنا چاہئے ۔ البتہ قائد وحدت حجۃ الاسلام والمسلین علامہ راجہ عباس جعفری دام ظلہ نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز حق اٹھائی ہے – پاکستان کے جس گوش وکنار میں بھی شیعوں پر ظلم ہوا خواہ پاراچنار میں ہوا ہو یا گلگت بلتسان میں ۔ کویٹہ میں ہواہو یا کراچی وپنجاب میں ہمیشہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق مظلومین کی حمایت اور ظالمین کے خلاف صدا حق بلند کی ہے ۔ بدون تردید وہ ایک عظیم درد مند شخصیت ہیں۔ بڑے کمالات کے مالک ہیں ۔ ان کے کمالات میں سے بارز کمال یہ ہے ، کہ وہ عصر حاضر کے نشیب وفراز پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ بلاشبہ ایک عبقری عالم دین اور احساس مسؤلیت کا اعلی نمونہ ہیں – جزبہ فداکاری سے لبریز ،قوم و اجتماع کے لئے دکھ درد دل میں رکھنے والی شخصیت ہیں ۔ جس کا واضح ثبوت تقریبا” مسلسل تین ہفتوں سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا کر بھوک ہڑتال کر بیٹھنا ہے ۔ تکفیریوں ،دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکنے والے ہمارے بے گناہ لاتعداد شہداء کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہے ۔

قائد وحدت کی فکر شہید مظلوم قائد ملت جعفریہ علامہ عارف حسین الحسینی اور قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر "رحت اللہ علیہما "کی پاکیزہ فکر کا تسلسل ہے ۔ ان کے بھوک ہڑتال اقدام کے ثمرات اور فوائد کسی پر پوشیدہ نہیں ۔ آج ان کے بھوک ہڑتال اقدام سے ایک بار پھر ملت تشیع کے لئے اپنے شہید قائد کی یاد تازہ ہورہی ہے ۔ ظالم وجابر حکمرانوں سے اپنے غصب شدہ حقوق کو چھیننے کے لئے یہ ایک سنہرا موقع ہے ۔جن مطالبات کو قائد وحدت علامہ راجہ عباس جعفری صاحب نے ملت تشیع کی نمائندگی کرتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے سامنے پیش کردیا ہے وہ بلاشبہ ملت تشیع کے لئے تقدیر ساز ہیں ۔ قارئین کرام؛ آپ خود ان مطالبات پر غور کریں مطالبات یہ ہیں (اول) پاکستان بھر میں ہونے والے شیعہ قتل عام کی روک تھام کی جائے( دوم)اب تک دہشگردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکنے والے مظلوم شیعوں کی کیسوں کی کاروائی کو فوجی عدالت کے حولے کردیاجائے( سوم)صوبہ پنجاب میں شیعہ عزاداری پر لگائی گئی پابندیوں کو ہٹایا جائے (چہارم) پاکستان میں تکفیری سرگرمیوں کو روکا جائے (پنجم) صوبہ خیبر پختونخواہ میں حالیہ شیعہ قتل عام کے خلاف حکومت موثر اقدام کرے (ششم) پاراچنار میں سکورٹی دستوں کے ذریعے کئے گئے شیعوں کے قتل کے حوالے سے تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے (ہفتم) گلگت اور بلتستان میں حکومت کی وساطت سے شیعوں کی زمینوں کو ہڑپ کئے جانے کا سلسلہ روکا جائے۔ خدا را آیئے میدان میں ۔ متحد ہوجائیں اور اپنی اجتماعی طاقت وقوت کو بروکار لاتے ہوئے ظالم حکمرانوں کو ہمارے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کراوائیں ۔ اس آواز کو کسی شخص یا تنظیم کی آواز نہ سمجھیں ۔ یہ آواز ملت تشیع کی آواز ہے چنانچہ معصوم کا بھی یہ ارشاد گرامی ہے کہ (لاتنظر من قال وانظر مال ) یعنی یہ نہ دیکھو کون کہرہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہرہا ہے ۔ اتحاد ہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔ اگر ہم متحد ہوجائیں گے تو ہمیں کامیابی ضرور ملے گی ۔

اگر مسلمان ایک ہوکر بقائے امت پر گامزن ہوں
یقین جانو ملے گی ان کی پھر اپنی کھوئی ہوئی وہ عظمت
زمانہ دیکھے گا ان کی قوت تو درس اس کو بھی یہ ملے گا
ستم رسیدہ تمام قومیں نجات پائیں بزور وحدت
خدا کے آگے یہی دعا ہے کہ ہم بھی ایسا شعور پائیں
بقائے امت عزیز سمجھیں ختم کریں سب غرور و نخوت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے