” جاندار” معاشرے کے” بے جان ” افراد

مئی کی تپتی سہ پہرکو میں اپنے ایک دوست معراج عباسی صاحب کے ہمراہ انکونہ( اٹلی ) کے امیگرشن اور پاسپورٹ آفس گیا۔ مجھے آن لائن دو ہفتے پہلے معلوم ہو چکا تھا کہ میرا پاسپورٹ تیار ہے مگر وقت نہیں تھا کہ اس کو لے کر آتا۔ میں چند متعلقہ کاغذات کے ساتھ وہاں پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر حیران ہو گیا۔ کوئی لگ بھگ ڈيڑھ سو کے قریب افراد وہاں تین لائنوں میں کھڑے تھے۔ میں بھی درمیان والی لائن میں جا کر کھڑا ہوگیا مگر ایک گھنٹہ تک مسلسل ایک جگہ کھڑا رہ کر چکر سے آنے لگے۔ اس دوران جناب معراج عباسی صاحب نے مجھے وہاں کم کھڑا ہونے دیا۔ وہ میری جگہ لائن میں کھڑے ہو جاتے اور مجھے "تازہ ہوا” کھانے کے لئے "فری” کر دیتے۔

خیر ساڑھے چار بجے ایکدم سب افراد کو اندر بلا لیا۔ اندر مختلف کاؤنٹر تھے جہاں کوئی پاسپورٹ کی فیس جمع کروا رہا تھا، تو کوئی ویزے کی تجدید کے لئے کھڑا تھا تو کوئی میری طرح پاسپورٹ کے حصول کے لئے کھڑا تھا۔ پاسپورٹ کے حصول کے مخصوص کاؤنٹر پر جب میری باری آئی تو میرے کاغذات دیکھنے کے بعد "محترمہ” نے میری ایک رسید کو کم پا کر کاغذات جمع کرنے سے انکار کر دیا اور باقی جمع شدہ کاغذات کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔ خیر اس دوران وہاں ان کے عملے میں ایک جان پہچان والا دوست "مہدی بھائی” نظر آگیا۔ خیر انھوں نے میرے کاغذات جمع کر لئے اور ہال میں انتظار کرنے کو کہا۔

ہال مردوں، عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا اور ہر کوئی اپنے اپنےموبائیل پر مصروف تھا۔ بچے اس ہال میں اچھل کود میں مصروف تھے۔ کوئی اندر سے کھڑکیوں کے شیشے کھولتا تو کوئی بند کرتا۔ کوئی ان کھڑکیوں میں لگی شیشے کی سلائیڈوں کو ادھر ادھر کرتا۔ اچانک شیشے کی ایک سلائیڈ فوری طور پر جگہ سے ہٹ گئی اور ایک بچہ جس کی عمر مشکل سے آٹھ نو سال ہو گی باہر کی جانب جا گرا اور اس کی ایک درد بھری چیخ سے سارے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ بچہ کوئی 30/35 فٹ کی بلندی سے گرا اور نیچے بھی پختہ فرش تھی۔ چیخ کی آواز سن کر سب کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ جبکہ متاثرہ بچہ خون سے لت پت فرش پر پڑا تھا۔ اس بچے کے پاس اس کے والد سے بھی پہلے پہنچنے والا کوئی اس کا دوست یا رشتہ دار نہیں تھا بلکہ میرے دوست جناب معراج عباسی صاحب تھے۔

اس دوران کسی شخص نے بچے کی فوٹو بنائی نہ ویڈیو بنائی۔ سب نے اپنے اپنے موبائیل فون اپنی اپنی جیبوں میں ڈال دئیے۔ ہال میں معمول کا کام بھی تھوڑی دیر کے لئے رک گیا اور ایک سناٹا سا چھا گیا۔ پانچ منٹ کے اندر ایمبولینس وہاں پہنچ چکی تھی۔ ایمبولینس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد پولیس نے اس جگہ کا معائنہ کیا اور امیگریشن کے اعلٰی عہداداران بھی موقع پر مقامی صحافیوں کے ہمراہ آئے۔ ہال میں خاموشی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہاں فی الوقت کوئی انسان موجود نہیں ہے۔

اس کے برعکس "پاکستان” میں اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہر ایک دیکھنے والی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے فوٹو شوٹ کئیے جائیں اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کی جائے۔

متاثرہ شخص تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے مگر ویڈیو بنانے والے اس کی آخری ہچکی تک کی فوٹیج بنا کر اس بات کا کریڈٹ اپنے نام کرتے ہیں!!!!!۔

ہمارے ہاں کوئی بھی ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیتا۔ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس فوٹو یا فوٹیج کو پہلے وہ شئیر کرے۔

ویڈیو بھی بنائیں اور فوٹو بھی شوٹ کریں مگر ہر چیز کے لئے اس کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ پہلے قیمتی جانوں کو بچائیں جو صرف بروقت اطلاع ہی سے ممکن ہے۔ پھر اپنا شوق اور "شغل” بھی پورا کر لئیں۔

کتنی ویڈیوز ایسی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان کو چھپ چھپ کر بنایا جاتا ہے مگر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ حکام بالا تک بروقت اطلاع پہنچائی جائے یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بتایا جائے!!!!۔

ہم ایک” جاندار” معاشرے کے” بے جان ” افراد ہیں۔

اپنے اندر کے انسان کو ہمیشہ زندہ رکھو!!!

اگر زندوں میں رہنا چاہتے ہو !!!۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے