خواجہ آصف اپنی شعلہ بیانی کے باعث ویسے ہی بہت مشہور ہیں یا پھر کہنا چاہئے کہ بدنام ہیں، ٹھیک اس طرح جس طرح منی بدنام ہوئی تھی۔۔ کیونکہ وہ منی بدنام ہوئی کا گانا بھی مشہور ہوا اور منی نے بھی شہرت پائی، ٹھیک اسی طرح خواجہ آصف جب اس طرح کی گفتگو کرتے ہیں تو وہ خود بھی مشہوری لیتے ہیں اور ان کی منہ کمان سے نکلے تیر الفاظ بھی خاصی شہرت پاتے ہیں۔
پی ٹی آئی لیڈر جب ریکارڈ مدت تک پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کے بعد قومی اسمبلی ہال میں پہلے روز پہنچے تو عمران خان سمجھ رہے تھے کہ ن لیگی ارکان جو کہتے رہے تحریک انصاف پارلیمنٹ میں آ کے بات کرے اب لوٹ کر آنے پر ہمارا استقبال کریں گے لیکن وہ ہتھے چڑھ گئے خواجہ آصف کے ۔۔
خواجہ صاحب نے طے شدہ منصوبے کے تحت پی ٹی آئی والوں کو ایسے جملے بولے کہ وہ ضرب المثل بن گئے، اب ہر شخص کسی کو لتاڑنے کے لیے کہتا ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔۔ کوئی ایتھکس ہوتے ہیں کوئی گریس ہوتی ہے۔ اس وقت بھی ویسے بات تو ٹھیک تھی جس پارلیمنٹ کو جعلی کہا جاتا رہا اس سے آپ غیر حاضر رہے اسے گالیاں دیتے رہے پھر خاموشی کے ساتھ واپس بھی آگئے اور اس تمام غیر حاضری کے دنوں کی تنخواہیں بھی باقاعدہ وصول کیں لیکن جب خواجہ آصف نے اس لہجہ میں انہیں لتاڑا تو پھر خواجہ صاحب کی جائز بات بھی ناجائز ہو گئی کیونکہ انداز گفتگو ایک رکن پارلیمنٹ یا وفاقی وزیر کے شایان شان نہ تھا۔
آج ایک بار پھر سیالکوٹ کا شیر قومی اسمبلی میں گرجا۔۔ آج الفاظ کی بمباری کا نشانہ بنیں ڈاکٹر شیریں مزاری۔۔ شیریں مزاری نے خواجہ آصف کی تقریر کے دوران شور مچانا شروع کر دیا، ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ سپیکر کو مخاطب کر کے اپنا خطاب جاری رکھتے لیکن انہوں نے کہا کوئی اس ٹریکٹر ٹرالی کو تو خاموش کرائے، اس پر اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور شور بڑھ گیا، اسی دوران نواز لیگ کے ایک اور شعلہ بیان مقرر میاں عبدالمنان کھڑے ہوئے اور انہوں نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی قامت پر جملہ بازی کرتے ہوئے کہا آنٹی آپ کھڑے ہو کر بات کریں۔۔۔ حالانکہ وہ کھڑی ہوئی تھیں، یعنی ان پر دو حکومتی ارکان نے رکیک حملے کیے۔
کچھ بھی معاملہ ہو۔۔ کیسے ہی الزامات کیوں نہ ہوں۔۔ اپوزیشن کا کام ہے حکومت پر تنقید کرنا، حکومت کا کام جوابی تنقید کرنا نہیں ہوتا۔ اور پھر تنقید اپنی جگہ آپ کسی کے قد و قامت کے حوالہ سے نشانہ بنائیں یہ کسی صورت قبول نہیں۔ یہ الفاظ بولنے کے بعد بھی خواجہ آصف کو شرمندگی نہیں ہوئی اور انہوں نے ان الفاظ کو واپس لینے یا معذرت کرنے سے صاف انکار کردیا۔انہوں نے کہا اگر خاتون کو اپنی عزت کرانی ہے تو وہ اپنا رویہ درست کریں۔۔۔ سپیکر ایاز صادق نے بھی نہ چاہنے کے باوجود الفاظ حذف کرا دیئے۔ لیکن ایسے حذف کرانے کا کیا فائدہ کہ ہر ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی ہے خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیا۔
ٹی وی چینل کو اللہ موقع دے، خواجہ آصف کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن بار بار شیریں مزاری کی تصویر دکھائی جاتی ہے اور اس پر ٹریکٹر ٹرالی لکھ دیا جاتا ہے، اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہو گئی ہے۔ خیر بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔۔ ایک دوست نے مجھے پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق کا خواجہ آصف کے نازیبا الفاظ پر رد عمل واٹس ایپ کیا۔۔۔ آہ ۔۔ بات آگے بڑھ رہی ہے جناب۔۔
نعیم الحق صاحب فرماتے ہیں خواجہ آصف کو اس قسم کی بے ہودگی اور بدتمیزی پر الٹا لٹکا دینا چاہئے اور پچیس جوتے صبح اور پچیس جوتے شام کو مارے جانے چاہئیں۔۔ واللہ ، اگر خواجہ آصف کی باتوں کو بے ہودگی کہا جائے تو نجی ٹی وی چینلز کو جاری ہونے والے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور ترجمان کے بیان کو کس خانے میں فٹ کیا جائے ۔
کیا بے ہودگی اور بدتمیزی کا جواب اسی انداز میں دیا جانا چاہئے تھا یا پھر بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواجہ آصف کی بدزبانی پر دہائی دینی چاہئے تھی۔۔ ابھی ٹی وی دیکھا تو اس پہ بھی پی ٹی آئی کی خواتین خواجہ کو شرم بھی دلا رہی تھیں تو اسی کے الفاظ میں۔۔ سوچنے کا مقام ہے، اگر میں آپ کو تھپڑ ماروں تو آپ مظلوم لیکن اگر آپ بھی جوابی تھپڑ دے ماریں گے تو آپ کے پاس مجھے بد اخلاق کہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔۔
آخر میں خواجہ آصف ، دانیال عزیز، طلال چوہدری، رانا ثناء اللہ، زعیم قادری سمیت جتنے بھی چھری جیسی زبان رکھنے والے ن لیگیوں سے درخواست ہے کہ خواتین کااحترام نہیں کرنا تو نہ کریں لیکن کم از کم اپنے مرشد جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے احترام رمضان قانون کا ہی احترام کر لیں۔۔ ورنہ روز روز آپ کے فرمودات آتے جائیں گے اور بدتمیزوں کی لغات میں الفاظ کا اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔۔