اسلام آباد: پاکستان نے امریکا کو واضح الفاظ میں بتایا ہے کہ مستقبل میں اگر اس کی سرزمین پر ڈرون حملے کیے گئے تو یہ پاک- امریکا تعلقات کو مضبوط کرنے کی مشترکہ خواہش کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ان خیالات کا اظہار امریکا کے اعلیٰ سطح کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔
یاد رہے کہ امریکا کا اعلیٰ سطح کا وفد اسلام آباد پہنچا، جس میں پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے ڈاکٹر پیٹر لیوئے،امریکی سفیر رچرڈ اولسن اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں جنوبی ایشیا کے معاملات کے ڈائریکٹر اور سینئر ایڈوائزر بھی شامل ہیں۔
پاکستانی وفد میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد شریک تھے۔
امریکی وفد سے ملاقات کے دوران سرتاج عزیز نے کہا کہ گذشتہ ماہ 21 مئی کو ہونے والا امریکی ڈرون حملہ نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی تھا بلکہ اس سے دو طرفہ تعلقات بھی متاثر ہوئے۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا کے مطابق ملاقات کے دوران بلوچستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے کے تناظر میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی اورافغان امن عمل کا جائزہ لیا گیا۔
سرتاج عزیز نے اس حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا کہ امریکی ڈرون حملے نے ایک ایسے وقت میں افغان امن اعمل کو سبوتاژ کیا جب پاکستان چار ملکی کوآرڈینیشن گروپ کے ساتھ افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششوں میں مصروف تھا۔
امریکی وفد کی جانب سے پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے سوال پر مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کے تحت اپنی سرزمین سے دہشت گردوں اورعسکریت پسندوں کے خاتمے کے سلسلے میں مصروف عمل ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بہتر سرحدی انتظامات اور افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی کے ذریعے اپنی سیکیورٹی کا بھی خیال رکھنا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سہولت کاروں کے خلاف افغان فورسز کی جانب سے کارروائیوں کی امید رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات سے پاکستان اورافغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ ملے گا۔
اس موقع پر ڈاکٹر پیٹر لیوئے نے امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کی جلد صحت یابی کے حوالے سے پیغام پہنچایا اور کہا کہ صدر اوباما پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے پر عزم ہیں۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے چار ملکی مذاکراتی عمل کو شدید متاثر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے 21 مئی کو پاک افغان سرحدی علاقے میں کیے گئے ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم علاقے کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ ڈرون حملہ بلوچستان میں کیا گیا، جو ’ریڈ لائن‘ کی خلاف ورزی ہے۔
بعد ازاں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے میں 2 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم اور دوسرے کی شناخت ولی محمد کے نام سے ہوئی۔
ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ولی محمد کی سفری دستاویزات کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر افغان طالبان امیر ملا اختر منصور ہوسکتا ہے، بعدازاں ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق کردی گئی تھی۔
دوسری جانب افغان طالبان نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے مولوی ہیبت اللہ اخوانزادہ کو نیا امیر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس حملے کے بعد پاکستان نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا تھا اور انہیں یہ باور کروایا تھا کہ اس قسم کے حملے پاکستان کی خودمختاری کی سخت خلاف ورزی ہیں۔
دوسری جانب ڈرون حملے کے بعد ترجمان امریکی محکمہ خارجہ مارک ٹونر نے کہا تھا کہ امریکا، اپنے فوجیوں کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے جاری رکھے گا۔