اہل سیاست کا گرتا ہوا اخلاقی معیار

اہل سیاست کا گرتا ہوا اخلاقی معیار
کوئی عام شہری نہیں یہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف ہیں جن کے شہر آفاق جملے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے جو انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے مقدس ایوان میں ادا کیے اب گزشتہ دنوں اُنکا نشانہ خان صاحب تو نہیں لیکن تحریک انصاف کی خاتون سینئر رہنما شیریں مزاری بنی جسکو خواجہ صاحب نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر صاحب کی موجودگی میں ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیا خواجہ صاحب خواتین کے معاملہ میں اس طرح کی گھٹیا زبان پہلے بھی ا ستعمال کر چُکے ہیں مشرف دورحکومت میں مسلم لیگ ق کی رُکن قومی اسمبلی مہناز رفیع جو تھوڑا لنگڑا کر چلتی تھیں خواجہ صاحب نے اُنہیں کبوتر سے تشبہہ دی۔ہر مہذب معاشرے میں خواتین کو ایک خاص مقام حاصل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ نارواں سلوک کیا جاتا ہے جسکی نہ ہی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی کوئی اور مہذب معاشرہ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے سیاسی اور اخلاقی گفتار کے حوالے سے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کو رہبر جانااور نہ ہی قائد اعظم کو اس معاملے میں رہنماتسلیم کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو ہماری تاریخ ایسی غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔پاکستان بنا تو ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے رویے سے ظاہر کر دیا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتے سب سے زیادہ مسئلہ انہیں حسین شہید سہروردی سے تھا جنہیں وُہ اپنے لیے سیاسی اعتبار سے خطرہ محسوس کرتے تھے وطن عزیز کے تیسرے یوم آزادی کے موقعہ پر قائد ملت نے فرمایا "سہروردی وُہ کتا ہے جسے بھارت نے کھلا چھوڑ رکھا ہے”۔ستمبر 1950میں لیاقت علی خان نے ایک تقریر میں حسین شہید سہروردی کو تنقید کا نشانہ بنایا تقریر کے کچھ حصے پاکستان ٹائمز میں چھپے اسکا ترجمہ قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامہ میں شامل ہے جو کچھ یُوں ہیں "اب پاکستان آنے کے بعد مسٹر سہروردی اور انکی سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ پاکستانی مسلمانوں کے اتحاد اور یقین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف عمل ہے سہروردی کا دعوی ہے کہ پاکستان کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں وُہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کر کے کس کو فائدہ پہچانا چاہتے ہیں ؟ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں یہ لوگ وطن کے غدار ہیں ،منافق ہیں،جھوٹے ہیں”۔گورنر جنرل ملک غلام محمد کا تو یہ معمول میں شامل تھا کہ وُہ مخالفین خاص طور پہ سیاستدانوں کو گالیاں دیتے ایوب خان نے اپنی کتاب فرینڈ ناٹ ماسٹر میں ان سے ایک ملاقات کا ذکر کیا جس میں اُنکی گالیاں رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں چودھری محمد علی نے ہمت کر کے بات کرنے کی کوشش کی تو اُن پر بھی گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔1965ء کے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح سے تھا تو وُہ اُنکی عوامی پزیرائی سے گھبرا گئے ممتاز لکھاری الطاف گوہر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان کی برداشت جواب دینے لگی تھی انھوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس فاطمہ جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر خلاف فطرت زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وُہ بد خصال لوگوں میں گھری ہوئیں ہیں ایوب خان کے ان غیر اخلاقی کلمات پر سرکاری حلقے سکتے میں آگئے تاہم ایوب خان کو اسکا کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچاالیکشن کی گہما گہمی میں ایوب خان کے غیر محتاط جملے دب گئے۔ایوب خان نے مجیب الرحمن کو سیاسی غنڈہ ،اور ممتاز دولتانہ کو مکار لومڑ قرار دیا۔70ء کی دہائی میں غیرا خلاقی زبان کا بے دریغ استعمال کیا گیا اسی طرح ایوب خان کیخلاف تحریک چلی توشیخ مجیب الرحمن کی زبان بھی کنٹرول میں نہ رہی انھوں نے کہا کہ وُہ اقتدار میں آکر "نورالامین کی کھال اُدھیڑ کر اس کے جوتے بنائیں گے” پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈوں میں مخالفین کے نام بگاڑنے اور تمسخر اُڑانے میں ذولفقار علی بھٹو پیش پیش رہے۔مسٹر بھٹو نے اصغر خان کو آلو خان اور خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیریل خان قرار دیا۔بھٹو نشتر پارک میں بنگلہ دیش کو منظور کئے جانے کے حق میں دلائل دیتے رہے عوام نہ مانے تو تنگ آکر کہا سور کے بچے جہنم میں جائیں ۔اصغر خان بھی بھٹو پر گرجتے برستے نظر آئے اُنکی طرف سے بھٹو کو کوہالہ کی پلُ پر پھانسی دینے کا عزم کیا گیا۔اس بہتی گنگا میں جنرل ضیاء الحق بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور انکے ارشاد عالیہ بھی جان لیں” آئین، آئین،آئین ہے کیا؟ دس بارہ صفحوں کا کاغذی پرُزہ جسے میں جب چاہوں پھاڑدوں اگر میں آج اعلان کر دوں کے کل سے ہم کسی مختلف نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے تو مجھ کو کون روک سکتا ہے؟ میں جس طرف چاہوں سب اُسی طرف چلیں گے ذوالفقار علی بھٹو کسی زمانے میں بڑے تیس مار خان اورسورما ہوا کرتے تھے وُہ بھی اور باقی سب سیاست دان بھی دُم ہلا کے میرے پیچھے چلیں گے۔90 ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اخلاقیات کی سب حدیں عبور کیں ۔جلسے اور جلوسوں اور حتی کہ پارلیمنٹ میں غیر پارلیمانی زبان کا چناؤ کیا گیا اس میں محترمہ اور میاں نواز شریف دونوں پیش پیش رہے ۔میاں نواز شریف کی موجودگی میں اُس وقت مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے تو محترمہ کے حوالے سے انتہا کی شیخ صاحب محترمہ کے بارے میں ارشاد فرماتے تھے ” یہ کمینی ،لُچی ،لفنگی،بدمعاش ایسے نہیں جائے گی اسلام آباد آکر اسے جوتیاں مار کر نکالیں گے اور چیڑیا گھر میں بند کر دیں گے”لیکن مجال ہے کہ میاں صاحب نے خواتین کے بارے اس طرح کی نازیبا گفتگو پر شیخ صاحب کو لگام دی ہو۔ ۔گزشتہ دنوں
بلاول بھٹو شیخ رشید سے ملے اور خود کو اُنکا پرستار قرار دیااس پر پرویز رشید نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلاول کوپتہ ہی نہیں یہ شخص محترمہ کے بارے میں کس قسم کی گفتگو کرتے رہے محترم وزیر صاحب نے آدھا سچ بولا اصل حقیقت یہ ہے کہ شیخ رشید جب سرعام بینظیر پر کیچٹر اُچھالتے تو یہ سب کچھ میاں نواز شریف کی خوشنودی کے لیے ہی کرتے تھے اور کبھی بھی میا ں صاحب نے اخلاقی درس تو دور کی بات منع کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اسی طرح بینظیر نے بھی ایک موقع پر مہاجروں کو دہشت گرد اور بزدل چوہا قرار دیا۔ اے این پی کے سابق رہنما خان عبدالولی خان نے ایک دفعہ بینظیر کے بارے میں کہا کہ ” جس طرح انھوں نے اُنکے باپ (بھٹو) کو کیفر کردار تک پہنچایا اسی طرح اب وُہ ا س چھوُکری کو بھی انجام تک پہنچائیں گے”۔ اسی طرح پرویز مشرف نے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہمارے ہاں ویزے اور دولت کمانے کے لیے ریپ کروائے جاتے ہیں اس پر خواتین نے بہت احتجاج کیا۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے جلسوں میں اُنکا خاص طور پے نشانہ مولانہ فضل الرحمان رہے ہیں جن کو مولانہ ڈیزل کا خطاب دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ مولانہ کے ہوتے ہوئے یہودی ایجنٹوں کی کیا ضرورت۔مولانا صاحب جواب میں عمران خان کو یہودی ایجنٹ کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں شیدا ٹلی اور میں اس کو چپڑاسی بھی نہیں رکھوں گاخان صاحب نے سچ کر دیکھایا چپڑاسی تو نہیں رکھا لیکن سیاسی مشیر ضرور رکھا لیا۔ شہباز شریف کے بارے میں اخلاقیات کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو نا انصافی ہو گی زرداری صاحب کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں”زرداری تمہارے پیٹ سے پیسے نکالوں گا اور لاہور کی سڑکوں پر آپکو گھسیٹوں گااگر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں”۔۔پانامہ لیکس کے بعد محترم وزیر اعظم صاحب نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ” یہ مُنہ اور مسوُر کی دال یہ میرا احتساب کریں گے "پانامہ کے معاملے پر وزیر اعلی بلوچستان نے اپوزیشن کے احتجاج کے تناظر میں یہاں تک کہہ دیا "کتے بھونکتے رہتے ہیں اور کارواں چلتے رہتے ہیں صوبے کا چیف ایگزیکٹو جب ملک کے چیف ایگزیکٹو کی موجودگی میں ایسی بات کرے گا تو پھر سیاسی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکلے گا۔ لیڈر کا کا م پارٹی رہنما ؤں کی سیاسی اور اخلاقی تربیت کرنا ہوتا ہے بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کوئی ایسی قیادت چاہے وُہ فوجی ہو یا پھر سیاسی نہیں ملی جو اخلاقیات کے تقاضوں پر پوری اُترتی ہو ۔پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے عوامی مسائل کو حل کرنا ہے افسوس اس بات پہ کہ پارلیمنٹ اور سینٹ کا یومیہ خرچ تقریبا30 لاکھ ہے اور اس طرح کی جُگت بازی اور غیر اخلاقی گفتگو کرکے قوم کو کیا سزا دی جارہی ہے ؟ لوگوں کے پاس کھانے اور پینے کو کچھ نہیں اور ہمارے حکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا جمہوری حکومت میں ہر اجلاس کی کاروائی کو عوام براہ راست دیکھتی تاکہ ہمارے سیاستدانوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے عیاں
ہوتا ۔عر ض یہ ہے کہ انسان کی گفتار سے ہی اُسکی پہچان اور کردار بنتا ہے اس لئے سیاسی قائدین کو ہمیشہ اپنے لب و لہجہ میں احتیاط برتنی چاہیے جس سے انکی عزت اور نیک نامی میں اضافہ ہو دنیا فانی ہے ایسی خوش گوار یادیں ہوں تاکہ آنے والی نسلیں اپنے قائدین کو ایک آئیڈیل کے طور پہ یاد رکھیں ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور ، سب اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے