رمضان المبارک اور کتابِ انسانیت

رمضان ا لمبارک کا مقدس مہینہ اپنے پہلے عشرے میں ہے اور ملک کے طول و عرض میں اس مقدس مہینے کا اہتمام زوروں پر ہے۔ فرضیتِ رمضان ا للہ رب العزت کے اس احسانِ عظیم اور رحمتِ ابدی کا شکر بجا لانے کے لئے ہے جو غارِ حرا میں کالی کملی والے کے ذریعے قرآن مقدس کے نزول اور دینِ قیم کے عطا کی صورت میں پوری انسانیت پر کی گئی۔

رمضان کی حقیقت دراصل کیا ہے؟؟ یہ مہینہ محسنِ انسانیت ﷺکے اس عمل کا اتباع ہے۔ جس میں محمدﷺ نوامیسِ نبوت کی پیروی کرتے ہوئے قرآنِ پاک کے نزول کے تحمل کے لئے مادی ضروریات سے مستغنی ہوئے۔ہدایت و رہنمائی کا وہ تحفہء عظیم جو اس مہینے میں انسانیت کومحمدعربیﷺ کے ذریعے عطا کردیا گیا۔ اسکا شکریہ ادا کرنے کے لئے اطاعت و عبودیت کا یہ طریقہ اس مہینے محمدﷺ کی اتباع میں مادی ضروریات سے مستغنی رہنے کی صورت میں بتا دیا گیا۔ جس شب میں اس تحفہء عظیم(قرآنِ مجید) کا نزول ہوا۔ وہ یومِ اکبر یعنی یومِ نزولِ قرآن جسے لیلۃالقدر کے نام سے یاد کیا گیا۔اسلام کا عیدِ اکبر کہلایا۔پس ایک کلمہ گو اور محمدﷺ کے سچے امتی کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ان ایامِ مقدسہ میں اس زندگی کا چناؤ کرے جو قرآن کا مطلوب اور حاملِ قرآن کی زندگی کا پرتو ہو۔کیونکہ یہی تو وہ دستورِ حیات ہے۔ جسکی بدولت ہم نے جسم کی زندگی اور روح کی تسلی پائی۔۔عین اس وقت جبکہ بدی نیکی پر غلبہ آور تھی۔ توحید کی کرنیں اوراسکا روشن چہرہ کفر و عصیان کے ظلمت کدوں میں کہیں چھپ گیا تھا۔اور انسانیت اپنے خالقِ حقیقی کی بغاوت پر اتر آئی تھی۔

آسمانِ ہدایت کے وہ دروازے جو قریبا چھ صدیوں سے اولادِ آدم پر بند کر دے گئے تھے۔رحمتِ ربانی اور عطاءِ خداوندی کا وہ سلسلہ جو برسہا برس سے رک گیا تھا۔ خداوندِ کریم کے احسانِ عظیم قرآنِ حکیم کے نزول کی صورت میں انسانیت کی طرف پھر متوجا ہوگیا۔یہ نزول انسانیت کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب تھا، جس نے انسانیت کی فکری اور ذہنی ویرانیوں کو شادابیوں میں بدل دیا۔وہ دنیا جو سعادت اور روحانیت سے بیگانہ ہوچکی تھی ایک بار پھر اپنے چمن میں بہاروں کے منظر دیکھنے لگی۔اس احسانِ عظیم کی یاد اور اس سے عہدِ وفا کے لئے ہی مسلمان ماہِ صیام میں دنیا کی بھوک وپیاس سے بے نیاز اپنی روحانی پیاس اور تشنگی کو قرآن کی انقلابی اور آفاقی سوچ کے آبِ حیات سے مٹانے میں محو ہوجاتے ہیں ۔
لیکن مملکت، خدادا میں رمضان المبارک میں قوم کی حالت دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید ہم ربِ کائنات کے اس عظیم احسان کے تشکر اور ممنونیت میں بھی غلو اور بدعات و نفس پرستی کا شکار ہیں۔ہماری عہدِ وفا بھی نمود و نمائش اور رواجی اور فروعی عبادات میں بدل گئی ہے۔

ہماری روزمرہ کی زندگی میں توقرآن اب صرف برکت، مردے کے سرہانے پڑھنے کے لئے، قبر کے گرد دائرہ ڈال کر تلاوت کرنے ، سود و رشوت سے بنے بنگلے میں اسکا ختم کرنے ، شادی بیاہ کی غیر شرعی رسوم و رواجوں کے بیچ دلہن کی رخصتی کو با برکت بنانے اور نیک لوگوں کی محفل میں بیٹھ کراسکی تلاوت کا وظیفہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے ۔مگر اس سے بھی دردناک اور کربناک صورتِ حال تو وہ ہے جو ہم ماہِ صیام کے بابرکت مہینے میں اس کتابِ عظیم کا حشر حفاظ و علماء کے ہاتھوں دیکھتے ہیں ۔کہیں شبینوں کا اہتمام ہورہا ہے تو کہیں ختمِ قرآن کے سلسلے میں چراغاں کیا گیا ہے۔کہیں قرآن کے فضائل پر پرَ نور اور پُر جوش تقریریں ہیں تو کہیں قرآنِ پاک کو برکت و بخشش کا سامان سمجھ کر اس کی عظمت و بزرگی کے گن گائے جارہے ہیں۔ کہیں لیلۃ القدر کا جشن ہے تو کہیں قرآن پاک کو کئی حافظ مل کر ایک یا دو راتوں میں ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔

یہ بات اٹل ہے کہ قرآن کو اس طرح بغیر سوچے سمجھے پڑھنا اور بغیر عمل کے اس کو صرف ذریعہ ثواب سمجھنا قرآن کے عظیم مقصدیت کے ساتھ صراحا نا انصافی ہے۔ صحابہ کرام حضور اکرمؐ سے دس آیتیں پڑھ کر آگے نہیں بڑھتے جب تک اس پر عمل نہیں کرتے ۔حضرت عمر فاروقؓ کا یہ حال تھاکہ سورۃ بقرۃ حضورﷺ سے دس سال میں سیکھی۔ قرآن کتابِ عمل ہے۔اور اسکا پڑھنا اسی صورت میں میں فائدہ مند ہوگا جب اسکو پڑھ کر ، سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے۔ ورنہ صرف ثواب کی نیت سے قرآن کا بے ھنگم ختم اور تلاوت نہ اپنے لئے اور نہ معاشرے کے لئے مفید ہوگا۔ اسکا یہ ہرگز مطلب نہ لیا جائے کہ نعوزبااللہ ہم تلاوتِ قرآن کے منکر یا خلاف ہیں۔ مگر تلاوت وہ جو قرآن اور صاحبِ قرآن نے سمجھائی اور سکھلائی ہے۔ جسکا تتمہ عمل پر ہو۔ صحابہ کرام کا یہی وطیرہ تھاکہ جتنا قرآن پڑھتے اسکا عملی عکس اپنی زندگی میں ڈھونڈتے۔

لیکن اے کاش!!!قرآن کو وصیلہ ء ثواب سمجھ کر اپنے اپنے طریقوں سے اسے ختم کرنے کی تگ و دو نے ہمیں اس کے اصلی روح سے کافی دور کردیا۔ اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول ؛رواجی نیکیاں ہمارے پلے پڑگئیں۔قرآن کی روح سے دور اسکو مقدس کتاب سمجھ کر ثواب واجر کا وصیلہ بناکر ہم اس سے عملا بہت دور ہوگئے ہیں جسکا نتیجہ مولانا عبیداللہ سندھی کے بقول یہ نکلا کہ ؛ملت منتشر ہوگئی۔ خرافات عقائد کا حصہ بن گئے۔فکر ساکن ہوگئی۔عقلیں منجمد ہو گئیں۔عوام کو باور کرایا گیا۔کہ میلوں ،محافل اور عرسوں میں نجات ہے۔پبلک کاموں میں حصہ بے دین اور دنیا داروں کا کام ہے۔

لہذا قرآن پاک کو اس مقدس مہینے میں جب اسکے نزول کے شکر کے طور پر ہم اللہ کے دربار میں اپنا نفس اور اپنی خواہشات قربان کردینے کے لئے کمر کس لیتے ہیں تو پھر قرآن سے عہدِ وفا کی تجدید بھی اُسی طرح ہو جیسے کہ اسکا حق ہے۔اسکو غور و حوض سے پڑھنا اور اسکی سمجھ بوجھ میں میں تفکر اور تفقہ کرنا، اسکی تعلیمات پر تدبر اور پھر عمل پیرا ہونے کی بھر پور کوشش کرنا تاکہ ہماری پیدائش کا اصل مقصد پورا ہو کہ یہ مقصد قرآن پر عمل ہے نہ کہ طوطا بن کر اسکا ورد کرنا۔

اسلئے اس رمضان المبارک میں ہم یہ عہد کرلیں کہ قرآن پاک کے پڑھنے اس پر غور و فکر کرنے اور سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کا ہم وہ بنیادی حق ادا کردیں جسکی خاطر اللہ رب العزت نے یہ با برکت مہینہ ہمیں عطا کردیا تھا۔ہم شبینوں اور محافل کی چکا چوند روشنیوں میں مغفرت اور بخشش ڈھونڈنے کی بجائے صحابہ کرام رضہ اللہ تعالی عنہ کے نقشِ قدم پر چل کر قرآن کے چند آیات ہی اس مہینے میں اس طرح سیکھ لیں کہ وہ ہمارے عمل کا حصہ بن جائیں۔ تو سمجھو رمضان المبارک میں اس کتابِ انسانیت کا حق ادا اور شکریہ خداوندی ادا کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ اور اگر ہم نے نفسِ قرآن کو چھوڑ کر اسکی تلاوت بلا مفہوم کے اور اسکے ختم کرنے کو ہی ذریعہء نجات سمجھا۔ محافل، شبینوں میں ہم اپنا مقصدِحیات کھو بیٹھے تو پھر مزید تنزلی ، قرآن سے دوری، بے عمل زندگی اور نماز ، روزہ، حج کی چند ظاہری عبادات کا مجموعہ ہمارا اسلام ہوگا اور نتیجہ مزید بدعات اور خرافات میں پڑ جانا اور اقوامِ عالم میں مزید کمزور ہونا ہمارا مقدر رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے