برصغیر میں پولیس کے نظام کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو مغلیہ عہد میں یہاں پولیسنگ موجود تھی، لیکن انگریز نے جب یہاں قبضہ کیا تو ہر قابض کی نفسیات کے مطابق اس نے دیگر چیزوں کے ساتھ پولیس کا نظام بھی بدل ڈالا۔ برطانوی سامراج نے مجسٹریٹی نظام متعارف کروایا، جس کے مطابق داروغا اور دیگر ماتحت افسروں کو پولیسنگ کے لئے بھرتی کیا گیا۔ انگریزحاکم نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے پولیسنگ کا جدید نظام متعارف کروایا تاکہ وہ مقامی افراد پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکے، لیکن افسوس! انگریز کا بنایا نظام آزادی کے بعد نہ صرف اسی طرح چل رہا ہے، بلکہ اس نظام کو چلانے کے ’’مخصوص‘‘ مقاصد بھی نہیں بدلے، یعنی آج بھی حکمران اور دیگر بااثر طبقات پولیس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ پھر ادارے کی تباہی کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ کیا عجب بات ہے کہ ہر دور میں آنے والے حکمرانوں نے تھانہ کلچر میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور پھر خود ہی اس کی راہ میں روڑے اٹکائے، کیوں کہ پولیس کے بغیر ان کا اپنا نظام نہیں چلتا۔
محکمہ میں بھرتی سے لے کر افسروں کی تعنیاتیوں تک رشوت اور سفارش کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ہر تھانے میں پولیس افسر کی تعیناتی وہاں کے مقامی سیاست دانوں یا دیگر بااثر افراد کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے تاکہ فرمانبردار افسر ان کے ہر جائز و ناجائز حکم پر سرتسلیم خم کرے۔ آج پولیس عوام کے جان و مال کی حفاظت کے بجائے حکمرانوں کی حکمرانی، سیاست دانوں کی سیاست اور بااثر افراد کی اثر انگیزی کو بچانے میں مصروف ہے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سیاسی مداخلت اور حکمرانوں کے ’’مخصوص‘‘ مقاصد کے حصول کے باعث آج حالات یہ ہیں کہ شریف آدمی اپنے جائز کام کے لئے بھی تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے۔
افسوس! سے کہنا پڑتا ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار پولیس خود ہی معاشرتی انتشار کا باعث بنی ہوئی ہے۔ صرف حکمرانوں کی خدمت پر مامور پولیس اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور مہارتوں سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دہشت گردوں کا سامنا کرنا تو کجا آج یہ عام چوروں و ڈاکوؤں کو قابو کرنے میں بھی ناکام ہے۔ جہاں کہیں کسی اصل مقابلہ میں پولیس اہلکاروں کا ڈاکوؤں سے آمنا سامنا ہوا تو ڈاکو چند اہلکاروں کو زخمی کرکے نکل جاتے ہیں۔ شائد ہی کوئی ایسا حقیقی واقعہ ہو جب پولیس مجرموں پر قابو پا لے، ورنہ پولیس کو تو صرف ہاتھ بندھے ڈاکوؤں سے ہی مقابلہ کرنا آتا ہے۔ ایسا کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اب یہ فورس صرف شریف شہریوں یا مخالفین کو مزہ چکھانے کے لئے ہی رہ گئی ہے، اصل مجرموں سے ٹکرانا تو شائد ان کے ہاں ایک بے وقوفی تصور کیا جاتا ہے، جس کی بہترین مثال حال ہی میں کیا جانے والا کچہ آپریشن ہے، جس میں ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں کو ہی یرغمال بنا لیا اور ایک بار پھر پاک فوج کی مداخلت سے پولیس کی جان بخشی ہوئی۔
چیک ڈس آنر کے کیس میں پولیس نے ایک ملزم پکڑ لیا تو اس کا سسر جب تھانے آیا تو وہاں موجود تھانیدار نے اس بزرگ سے دس پندرہ افراد کے سامنے جس انداز میں گفتگو کی، وہ سن کر ایک بیٹی کا باپ یقیناً چاہتا ہو گا کہ اسی وقت زمین پھٹے اور وہ اس کے اندر اتر جائے
پولیس یونیفارم کی گرتی ہوئی ساکھ کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، بلکہ افسر و اہلکار خود ہی ہیں۔ روایتی تھانہ کلچر کے باعث کالی وردی سے شہریوں کی نفرت بلاوجہ نہیں۔ تھانوں میں عام شہریوں کے ساتھ جو سلوک برتا جا رہا ہے، اس کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی شخص کسی سطح پر پولیس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ امن و امان کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی کے لئے آئے روز پٹرولنگ پولیس، ایلیٹ فورس، محافظ سکواڈ اور اب ڈولفن کے نام سے بنائی جانے والی نئی فورسز کے قیام سے شہریوں کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے لئے کبھی پولیس کے بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے افسروں و اہلکاروں کی مراعات بڑھائی جا رہی ہیں تو کبھی ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے، لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود جرائم اور پولیس سے نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سیاسی مداخلت اور اہلکاروں کی بد زبانی و بداخلاقی ہے۔ تھانوں میں چھوٹے پرچے اور بدزبانی کے رجحانات انتہاؤں کو چھو رہے ہیں اور کوئی انہیں لگام ڈالنے والا نہیں۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
’’خدا کی نظر میں بدترین آدمی قیامت کے روز وہ ہوگا جس کی بدزبانی اور فحش کلامی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘
پولیس کے ظلم کے داستانیں اتنی طویل ہوتی جا رہی ہیں کہ انہیں زیر قلم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ پولیس کی ’’ٹریننگ، ٹریننگ، ٹریننگ‘‘ کی رٹ سن کر کان پک رہے ہیں، لیکن اہلکاروں کے اصل مسئلہ یعنی اخلاقی تربیت پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے۔ تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی بدزبانی اور بداخلاقی کے واقعات سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس آرٹیکل کا محرک بھی چند روز قبل پنجاب کے ایک تھانے میں پیش آنے والا بدزبانی کا واقعہ ہی ہے۔ چیک ڈس آنر کے کیس میں پولیس نے ایک ملزم پکڑ لیا تو اس کا سسر جب تھانے آیا تو وہاں موجود تھانیدار نے اس بزرگ سے دس پندرہ افراد کے سامنے جس انداز میں گفتگو کی، وہ سن کر ایک بیٹی کا باپ یقیناً چاہتا ہو گا کہ اسی وقت زمین پھٹے اور وہ اس کے اندر اتر جائے۔ یہ ایک واقعہ ہے، لیکن ہمارے تھانوں میں ایسے روز کئی کئی واقعات پیش آتے ہیں، جن کے بارے میں ہر کوئی جانتا بھی ہے، لیکن شریف شہری چوں کہ اندر سے بزدل ہوتا ہے تو وہ آواز نہیں اٹھاتا اور حاکم وقت کبھی اپنے وفادار کے خلاف ایکشن نہیں لیتا۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے گزشتہ برس مئی میں پولیس ٹریننگ کالج سہالہ میں سب انسپکٹروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تھانہ کلچر بدل دیں تو پاکستان کا کوئی ملک مقابلہ نہ کر سکے‘‘ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرنا کس نے ہے؟ عوام اپنے نمائندگان کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ملک و قوم کے لئے کام کریں، اور اگر یہی نمائندے خود سوالیہ الفاظ کا استعمال کریں گے تو شہری کہاں جائیں گے؟ تھانہ کلچر میں تبدیلی کیا عام شہری کی ذمہ داری ہے؟ تین تین بار وزیراعظم اور وزیر اعلی بننے کے اعزاز پر فخر کرنے والوں کی ذمہ داری صرف سو ماڈل پولیس سٹیشن بنا دینا نہیں، اس کے لئے پولیس اہلکاروں کی اخلاقی تربیت کرکے ہر تھانے کو ماڈل بنانا ہو گا۔
تھانہ کلچر میں تبدیلی۔۔۔وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا دعوی سچ ثابت ہوا؟
راقم نے ’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ کے پلیٹ فارم سے جون 2014ء میں وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ سے ایک انٹرویو کیا، جس میں تھانہ کلچر کے حوالے سے کئے جانے والے سوال و جواب کو یہاں من و عن پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ حکومتی دعوؤں اور حقائق کا موازنہ کیا جا سکے۔
ایکسپریس:
پنجاب میں تھانہ کلچر بھی کبھی بدلے گا؟ گزشتہ دور حکومت (2008-13) ختم ہونے سے قبل میاں شہباز شریف نے عوام سے معافی مانگی تھی کہ وہ تھانہ کلچر بدل نہیں سکے، کیا اس بار بھی انہیں اپنا بیان دوہرانا پڑے گا؟
رانا ثناء اللہ:
نہیں اس بار انشاء اللہ انہیں اپنا بیان دہرانا نہیں پڑے گا کیوں اس معاملہ میں اب بہت موثر پیش رفت ہوگی اور رواں سال کے آخر تک یہ چیز آپ کو نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ پنجاب میں کوئی 709 کے قریب پولیس سٹیشن ہیں، جہاں ہم پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سب انسپکٹرز بھرتی کر رہے ہیں، ان کو ہم تقریباً ایک سے ڈیڑھ سال تک بہت عمدہ ٹریننگ دیں گے۔ اسی طرح این ٹی ایس کے ذریعے کانسٹیبل بھرتی کئے جائیں گے، اس کے علاوہ انسداد دہشتگردی فورس کھڑی کر رہے ہیں، جو جدید تربیت اور آلات سے لیس ہو گی، یہ سال کے آخر تک آ جائے گی، اس فورس کے آنے کے بعد باقی پولیس پھر معمول کے جرائم کی طرف بھرپور توجہ دے گی۔ دوسرا ہم تحصیل سطح پر آئی ٹی کا سسٹم لا رہے ہیں، جہاں پر لوگوں کو 17اقسام کے مسائل کے حل کے لئے تھانے یا کچہری نہیں جانا پڑے گا۔ دیکھیں! تھانوں میں قتل یا ڈکیتیاں کرنے والے بھی جاتے ہیں لیکن ان لوگوں سے پہلے ہم عام شہریوں کی فکر کریں گے، جو مجرم ہے نہ ملزم، انہیں بھی لائسنس یا کریکٹر سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے جانا پڑتا ہے تو اس طرح کے مسائل اب اس آئی ٹی سنٹر میں ہی حل ہو جائیں گے۔ ہم ان چیزوں کو تھانے سے نکال کر پہلے تحصیل سطح پر لا رہے ہیں اور پھر اسے مزید پھیلایا جائے گا، جہاں کوئی پولیس اہلکار نہیں ہوگا بلکہ پڑھے لکھے بچے بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سن کر حل کریں گے۔ اس طرح سے ہم عام شہری کو تھانہ کلچر سے ویسے ہی الگ کر رہے ہیں، باقی مجرموں اور ملزموں کے لئے ہم یہ کر رہے ہیں کہ تفتیش کا نظام درست کیا جائے کیوں کہ ساری گڑ بڑ ہی یہاں ہوتی ہے۔ تو اس مسئلہ کے حل کے لئے ہم نے گزشتہ دور حکومت میں ہی بنیاد رکھ دی تھی، اس وقت 4 ارب روپے کی لاگت سے ایشیاء کی سب سے بڑی فرانزک لیبارٹریز بنائی گئی ہے، اب ہم تفتیش کا پورا نظام ہی اس پر لا رہے ہیں تاکہ تھانیدار کی یہ صوابدید ہی نہ رہے کہ یہ آدمی مجرم ہے یا نہیں۔ فرانزک لیبارٹریز میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ساتھ کرائم سین سے 14اقسام کے شواہد مل سکتے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ شواہد سے وہ جس ملزم کو جوڑیں گے وہ دنیا بھر میں واحد ہوگا۔
4 لاکھ افسروں و اہلکاروں کے ساتھ 1580 تھانوں اور 1365چوکیوں پر مشتمل پولیس ڈیپارٹمنٹ وطن عزیز میں پولیس فورس کی طاقت کی بات کی جائے تو ایک اندازے کے مطابق ایک ملین (10 لاکھ) لوگوں کے لئے تقریباً سوا دو سو پولیس اہلکار بنتے ہیں، جو تعداد کے اعتبار سے مناسب نہیں تو بہت زیادہ کم بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہ تناسب ترقی یافتہ ممالک میں تو چھوڑیں ہمارے پڑوس میں بھی کہیں کم ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں ایک ملین لوگوں کے لئے 123پولیس اہلکار جبکہ بنگلہ دیش میں 96 پولیس اہلکار ایک ملین لوگوں کے لئے ہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق ملک بھر میں اس وقت پولیس ڈیپارٹمنٹ تقریباً 4لاکھ افسروں و اہلکاروں کے ساتھ 1580 تھانوں اور 1365چوکیوں پر مشتمل ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 686 پولیس سٹیشنز اور 287 چوکیاں ہیں، جہاں ایک لاکھ 80 ہزار کے قریب افسر و اہلکار اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 262 پولیس سٹیشنز اور 429 چوکیاں، سندھ میں 503 پولیس سٹیشنز اور 405 چوکیاں، بلوچستان میں 111 پولیس سٹیشنز اور 237 چوکیاں جبکہ فیڈرل ایریا یعنی اسلام آباد میں 18 پولیس سٹیشنز اور 7 چوکیاں ہیں۔
فیس بک تبصرے