آرپار کشمیریوں کا ملن اورتلخ وشیریں یادوں کا تبادلہ

قریباًسات دہائیوں میں ایسے مواقع کم ہی میسر آئے ہونگے جب دونوں اطراف یعنی پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام دونوں خطوں کے کشمیریوں کوکسی فورم پہ باہم مل بیٹھنے اور ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ہو۔پاکستان اور بھارت کے بیچ نا مسائد حالات کے باوجود دونوں ممالک میں سفارتی ،سیاحتی،ثقافتی اوردیگرمختلف نوعیت کےوفود کے تبادلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن منقسم کشمیریوں کی کسی بھی سطح پر جب مل بیٹھنے کی بات آتی ہے تو دونوں ممالک کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور سفری دستاویزات جو کہ پہلے سے ہی ایک مشکل مرحلہ بنایا گیا ہے کو مذید پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے زیرکنٹرول دونوں خطوں کے کشمیریوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کے راستے خود ہموار کرنے ہونگے جس کی شروعات میر پوریونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے مختلف رکاوٹوں کے باوجود کردی ہے اور اس سلسلے کی پیروی اب دیگر نجی اورسرکاری اداروں سمیت ان این جی اوز کو بھی کرنی چاہئے جو سالانہ کشمیرکے نام پر کروڑوں عربوں روپے کے فنڈز ہڑھپ کرجاتے ہیں۔

یکم جون2016کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورحریت کانفرنس پاکستان و آزاد کشمیر شاخ کے باہمی تعاون سے انٹرنیشنل کشمیرسیمینار کا اہتمام کیا گیا جو دو دن تک جاری رہا۔ سیمینار میں آزاد کشمیر اور پاکستان کی قیادت کے علاوہ بیرون ملک کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سرینگر سے مدعوگیارہ رکنی وفد جس کی قیادت جموں و کشمیر سالویشن مومنٹ کے چیرمین ظفر اکبر بٹ کررہے تھے جن کے ہمراہ خالصہ تحریک کے سرگرم رکن نریندر سنگھ خالصہ بھی موجود تھے نے سیمینارمیں شرکت کی۔

یاد رہے ظفر اکبر بٹ ماضی میں حزب المجاہدین کے سینٹرل ڈویژنل کمانڈر رہ چکے ہیں۔انہوں نے متعدد بار خونی لکیر کو عبور کیا۔ وہ کشمیر میں عسکری محاز پر ایک سرگرم رکن رہے ہیں۔ظفر اکبر بٹ کو بھارت کی سیکورٹی فورسز نے متعدد بار پابند سلاسل بھی رکھا۔ حزب المجاہدین نے سال 2000میں جب بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا تواس وقت ظفر اکبر بٹ جنگ بندی کے منصوبے کا حصہ تھے۔

جنگ بندی کے فیصلے اور اس میں شامل پوری ٹیم کو متنازعہ بنانے کے بعد ظفر اکبر بٹ نے عسکریت کو خیرباد کہہ کر پولیٹیکل فرنٹ پر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور اپنی جماعت جموں کشمیر سالویشن مومنٹ کی بنیاد رکھہ دی۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیز اورحریفوں کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود انہوں نے ثابت قدمی سے اپنی جماعت کا دائرہ کاروادی کشمیر کے اندر اور باہر وسیع کردیا۔

دو ہفتے قبل جب ظفر اکبر بٹ گیارہ رکنی وفد کے ہمراہ واگہہ باڑر کے راستے انٹرنیشنل کشمیر سیمینار میں شرکت کے لئے پاکستان آئے تو پاکستان میں کشمیر کیمونٹی کی طرف سے انکا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ظفر اکبر بٹ نے میڈیا سے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ اور ان کے ہمراہ وفد میں شامل دیگر ارکان کسی طور مطمئن نہیں تھے کہ تمام سفری لوازمات پورے ہونے کے باوجود انہیں پاکستان داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔

اسلام آباد میں انٹر نیشنل کشمیر سیمینار سےحریت کانفرنس ‘گ’ کے سربراہ سید علی شاہ گیلانی اور حریت کانفرنس ‘ع’ کے چیرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق نے سرینگر سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ کشمیر پر ہونے والی کانفرنسوں اور سیمینارز کے مقابل یہ اپنی نوعیت کا ایک مختلف اجتماع تھا۔جہاں کشمیر کے دونوں اطراف کی نمائندگی موجود تھی۔سیمینار کا افتتاح صدر پاکستان ممنون حسین نے کرنا تھا لیکن اسی دن پاکستان کی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا لہذا یہ فریضہ صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر سردار یعقوب خان کو سونپا گیا۔

پاکستان اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اسلام آباد میں ہونے والے انٹر نیشنل کشمیر سیمینار میں اپنی بھرپور نمائندگی کی۔ آزاد کشمیر جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی، پاکستان میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ ‘ن’ کے راجہ طفرالحق،جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے سردار خالد ابراہیم،وفاقی وزیر چوھدری برجیس طاہرکے علاوہ پاکستان تحریک انصاف،پاکستان پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی،متحدہ قومی مومنٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے سیمینار میں شرکت کی۔

گو کہ سیمینار کے وقت کا تعین شائد مناسب نہیں تھا کیونکہ ان ہی دنوں یکم جون کو پاکستان کی قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس اور تین جون کو قومی اسمبلی میں پاکستان کا سالانہ بجٹ پیش ہونا تھا۔لہذا کشمیر سے متعلق اتنےبڑے پیمانے پر کانفرنس کے اہتمام کے لئے وقت کے تعئن کاخیال رکھاجاتا تو ذیادہ اچھا ہوتا۔لیکن اس کے برعکس کسی بھی ایسے اجتماع میں دونوں اطراف کے کشمیریوں کا مل بیٹھنا ہی بہت بڑی بات تھی۔ کیونکہ کشمیریوں کے لئے ایسے مواقع میسرآنا کسی معجزے سے کم نہیں۔

جیسا کہ سیمینار کے منتظمین کا کہنا تھا کہ کانفرنس کی تیاریاں رواں سال جنوری میں شروع ہوئی تھیں اور فروری کے مہینے میں وقت اور جگہ کا بھی تعئن ہوچکا تھا لیکن نامسائد حالات اور سرینگر سے مدعو کئے جانے والے مہمانوں کو بھارت کی طرف سے بروقت سفری سہولیات نہ دینے کی وجہ سے سیمینار کو ملتوی کرنا پڑا تھا لہذا دوبارہ ملتوی کرنے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔

اسلام آباد میں منعقدہ انترنیشنل کشمیر سیمینار میں کشمیر سے متعلق مختلف موضوعات پر سیرحاصل گفتگو کی گئی۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں موجود قراردادوں سے لیکر کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں تک تمام مسائل پر بات چیت ہوئی۔بھارت کی طرف سے کشمیر کی نسلی و جغرافیائی تبدیلیوں کی بھی مزمت کی گئی۔

دوران سیمینار شرکاء کی طرف سے چند تلخ جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔پاکستان کی کشمیر پالیسی اور سفارتی و سیاسی محازوں پر سرگرم تنظیموں کے کردار پر بھی شدید برہمی کا اظہار دیکھنے میں آیا۔لیکن مجموعی طور پر سیمینار میں شریک تمام مندوبین اس بات پر متفق دکھائی دئےکہ کشمیر سے متعلق کسی بحی فیصلے سے قبل کشمیریوں کی رائے کا احترام کیا جائے۔شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیریوں کا باہم مل بیٹھنے،ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننےاور دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں کے مسائل کی جانکاری کے لئے ایسے اجتماعات کا اہتمام ضروری ہے۔

دو روزہ انترنیشنل کشمیر سیمینار کی اختتامی تقریب میں میر پور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘مسٹ’ کی طرف سے حریت کانفرنس ‘گ’ کے چیرمین سید علی شاہ گیلانی کو ڈاکٹریٹ کی اعزاذی ڈگری دی گئی جو سرینگر سے آئے وفد میں شامل آغاسید حسن الموسوی السفوی نے وصول کی۔ اختتامی تقریب میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا ،سابق سینیٹر عطیہ عنایت اللہ، وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر کے علاوہ پاکستانی صحافیوں،وکلا، سول سوسائٹی اور طلباء کی ایک بڑی تعدادموجود تھی۔

سیمینار کے اختام پر تمام شرکاء کی طرف سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیاجس میں بھارت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کے لئے علحیدہ کالونیاں قائم کرنے سمیت کشمیر کی جغرافیائی تبدیلیوں کو مسترد کیا گیا۔اعلامیے میں کشمیر سے متعلق کسی بھی ممکنہ حل کے لئے کشمیریوں کی رائے کو مقدم رکھنے پر زور دیا گیا۔بحارت اور پاکستان کے مابین کسی بھی مزاکراتی عمل میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو سامنے رکھا جائے اور کشمیر کے دونوں خطوں کی عوام کو اس بات کا حق دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود تجویز کرسکے۔۔

دوروزہ سیمینار کے اختتام کے بعد سرینگر سے ظفر اکبر بٹ کے ہمراہ وفد نے مظفرآباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختصر قیام کے دوران آزاد کشمیر کی مذہبی،سیاسی،صحافتی اور سماجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں ۔ملاقاتوں میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور آزاد کشمیر کی قیادت کے حوالے سے مسلہ کشمیر کے تعیں کردار پر بحی تبصرہ ہوا۔

مجموعی طور پر سرینگر سے آئے وفد اور آزاد کشمیر میں مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ایک بات پر یکسوئی دیکحی گئی کہ سفارتی اور سیاسی سطح پر سرگرم اداروں اور تنظیموں کو مذید فعال بنایا جائے اور کشمیر کے دونوں خطوں کی عوام کو آپس میں مل بیٹھنے کی راہیں ہموار کی جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے