کچلی روحوں پر فوٹو سیشن

 

آج یہاں پر خوب گہما گہمی تھی اور سب کے ہی چہرے امید سے دمک رہے تھے۔۔۔ میں بھی خوش تھی کہ اب بھی کسی کو ان بے یار و مددکار لوگوں کا خیال ہے۔ اوراس بار یہ بھی بہتر
طور پر رمضان گزار سکیں گے۔۔جب بم ڈسپوزل اسکواڈ کے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے پورے علاقے کی چھان بین کروائی جا رہی تھی۔۔۔ تب یہ سب دیکھ کر میری امیدوں سے کہیں زیادہ یہاں کے مکینوں کی خواہش ،آس امید گہری ہوتی جا رہی تھیں۔

31مئی 2016 کو کراچی سپر ہائی وے گڈاپ ٹاؤن کے علاقے کاٹھور کے رہائشیوں کے لیے دو ٹرک بھر کر راشن آیا-یہ راشن پیپلز پارٹی یا زرداری خاندان کی طرف سے نہیں تھا بلکہ ابو ظہبی کی حکومت کی طرف سے نیک خواہشات کے ساتھ ہماری غریب عوام کے لیےرمضان کے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ جہاں ابو ظہبی picccکی نمائندگی وہا ں کی شہزادی فاطمہ بنتِ مبارک کر رہی تھیں وہیں اس کارِ خیرمیں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے بختاور اور آصفہ زرداری بھٹو بھی موجود تھیں۔

فی راشن 40کلو آٹا، 20 کلو چاول،10کلو چینی، 5کلو گھی اور دیگر اشیاء پر مشتمل تھا جو دو من سے زیادہ کا وزن بنتا ہے، حیرت ہے اتنا وزن بختاور اور آصفہ جیسی عورت اٹھا کر ایک ادھیڑ عمر عورت کو تھماتی نظر آئیں۔ یہ دیکھ کر خیال ہوا کہ
پاکستانی خواتین کو اب ہیوی ویٹ چیمپین شپ میں بھی حصہ لینے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

اتنے پیسوں کا یہاں راشن تقسیم نہ ہوسکا جتنا خرچ شہزادیوں کے سیکیورٹی اور پروٹوکول پر آیامگریہ قدرت کی عطا کردہ اس گرمی کا کیا کرتے جو پاکستان اور ابو ظہبی کی شہزادیوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھی، نتیجاً۔۔۔۔ً 20 افراد میں کچھ راشن بانٹ کر ہی ان شہزادیوں کو لگا کہ ان کا فرض ادا ہو گیا ہے۔ جبکہ میڈیا میں راشن پانے والے خوش نصیب گھرانوں کی تعداد 2000 بتائی گئی ہے۔ہم تو خیر عادی ہیں مگر اماراتیوں کے سامنے شرمندگی کا لمحہ تب آیا جب پروٹوکول افسر نے ان ٹرکوں سے سامان اپنی گاڑی میں بھروانا شروع کیا۔ جس کی عکس بندی وہاں پر موجود صحافیوں نے کی اور کچھ نجی چینلز نے اس کو نشر بھی کیا۔

کاش کے راشن تقسیم کرنے کے بجائے فاطمہ بنت مبارک ان پاکستانیوں کو اپنے نیک گر سکھا جاتیں کہ ضرورت مندوں کی عزت نفس مجروح کیے بغیرخیرات اورراشن کیسے بانٹا جاتا ہے ۔کیسے متحدہ عرب امارات میں مزدوروں اور کم آمدنی والے علاقوں میں گھروں کے دروازوں پر مہینے بھر کا راشن خاموشی کے ساتھ رکھ کر آجاتے ہیں۔اطلاعی گھنٹی بجا کر اس سرعت سے جاتے ہیں کہ اکثر مکینوں کو جاتی گاڑی بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوتی۔

یہ راشن ۔۔۔آٹھ سال حکومت میں رہنے والی پیپلز پارٹی بھی اپنے لوگوں میں خود تقسیم کر سکتی تھی جس کا نعرہ ہی "روٹی” سے شروع ہوتا ہے۔ یہی روٹی ان کوووٹ دلاتی ہے۔۔۔ہ یہ روٹی اپنے لوگوں کو ذلیل کر کے ،انکی روح کو کچل کر ان تک پہنچائی جاتی ہے اور بدلے میں مجبور کہوں یا بے عقل، یہ افراد اپنے ووٹ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ کیا کیا جائے ہمارے حکمراں طبقے کو ثواب کمانے ،صدقہ خیرات کرنے اور شہرت کے لیے بھی کیمروں اور بیرونی سیلیبریٹیز کے سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔

یوں ہمارے ساتھ کاٹھور کے مکین بھی اپنے حاکموں کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان بیس افراد کے علاوہ وہاں پر موجود1980 خاندان کے پر امید لوگ غریب ضرور تھے مگر وہاں بھیک مانگنے نہیں کھڑے ہوئے تھے کہ انہیں اس طرح دھتکار کر بے عزت کیا جاتا۔ ان کی بے بس چہروں پر مرجھاتی آنکھوں کی دم توڑتی امیدوں کو محسوس کر کے صرف ایک خیال آیا کہ محض اپنے فوٹو شوٹ اور شہرت کے لیے ان غریبوں کی لاچاری کا تماشہ لگانا، عزتِ نفس سے کھیلنا ، ان کی غربت کا مذاق اڑانا کتنا آسان ہے۔۔

اپنی دکان چمکانے کےلیے غریبوں کو تماشہ بنانے کی ایک بے مثال 5جون 2016 کا ایکسپو سینٹر کا پروگرام بھی ہے ، جب غیر سرکاری تنظیم "جعفریہ ڈیساسٹر مینیجمنٹ سیل”( جے۔ڈی-سی) نے ایک بڑا ڈیساسٹر کراچی میں پیدا کیا۔ جے-ڈی-سی کے مطابق ان کے راشن میں آٹے کے 10کلو کے دس ہزار بوریاں، 3کلو ٹن چاول اور دیگر سامان شامل تھا۔ مگریہ راشن دو گھنٹے میں ہی ختم ہو گیا اورنا امید عوام نے اپنی بے بسی کا غبار چیزوں کو توڑ پھوڑ کر نکالا۔اسی پر ان کی بس نہیں ہوئی تو اسٹال کے میزیں کرسیاں اور الیکٹرونک کا سامان بھی چرانے کی کوشش کی گئی اور ایک دوسرے سے راشن کا سامان بھی چھیننے لگے ۔ جب گھبرا کر رضاکاروں نے دروازے بند کر دیے تو جو افسوسناک صورت حال پیدا ہوئی وہ ساری دنیا نے دیکھی۔

کیا خاموشی کےساتھ صرف ان خاندانوں کو نہیں بلایا جا سکتا تھا جن کو اس تنظیم نے ٹوکن دیے تھے۔۔۔ ضروری تھا کہ اس کی نیوز چینلز سے لے کے سوشل میڈیا تک اتنی تہشیر کی جائے کہ بغیر ٹوکن والے افرادبھی آس و امید باندھ کر پہنچ جائیں۔ اور یہ جم غفیر پھرانتظامیہ سے کنٹرول نہ ہو۔۔۔ بعد میں سارا لزام بھوک اور تنگدستی کے مارے لوگوں پرلگا دیا جائے۔

پاکستان میں ہی بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں ضرورت مند خاندانوں میں اشیاء خورد و نوش اس منظم طریقےسے تقسیم کرتی ہیں کہ یہ سامان مستحق افرادتک عزت کے ساتھ پہنچایا جاتاہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہ این- جی – اوز شہرت اور فنڈز کے لیے ڈرامے نہیں کرتیں۔

جب بختاور اور آصفہ راشن کے بیس تھیلے تقسیم کرکے چل دیں ، اور 2 ٹرکوں میں موجود راشن افسران واپس لے گئے تو خالی ہاتھ لوٹنے والی سکینہ کے چہرے پر مایوسی اور نا امیدی کے سائے مزید گہرے ہو گئے ، اور حکمرانوں کا فوٹو سیشن پسے ہوئے طبقے کی عزت نفس کو کچل کر ان کی محرومیاں مزید بڑھا گیا ۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے