کاش ہمارے حکمران حضرت علیؓ سے سیکھ لیتے!

مانتا ہوں کہ ہمارا دور مادی ، علمی اور فکری ترقی کا دور ہے ۔ ایک دور تھا ،کہ لوگ غاروں میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ ہر جہت سے لوگ پسماندگی کا شکار تھے ۔ تفکر اورتعقل سے امور زندگی چلانے سے لوگ قاصر تھے ۔ نہ و ہ اجتماعی و معاشرتی زندگی کی اہمیت سے آشنا تھے ، اور نہ ہی وہ امور زندگی میں ترجیحات کی تشخیص کی صلاحیت رکھتے تھے ۔وہ لوگ انسان وانسانیت کی منزلت ، وقار اور صفات سے بھی ناواقف تھے ۔

لیکن ہمارے دور میں پوری دنیا سمٹ کر انسان کی مٹھی میں بند ہوچکی ہے ۔ بچہ بچہ منٹوں میں پوری دنیا کے حالات سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے ۔ غرض ہمارا دور گزشتہ ادوار سے مادی ،علمی ، فکری و،،،، ترقی کے اعتبار سے ہرگز قابل مقایسہ نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا ، کہ آج کے ہمارے ترقی یافتہ معاشرے میں ہمارے علم سے کہیں ذیادہ ہماری جہالت کا راج ہے ۔ بلکہ یہ کہنا ذیادہ حق بجانب ہوگا کہ ہماری جہالت میں روز بروز مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اتنی علمی پیشرفت کے باوجود کچھ مفاہیم سے ہم نہ صرف جاہل ہیں بلکہ ان کی نسبت ہم جہل مرکب کا شکار ہیں ۔

ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم ان مفاہیم سے جاہل و بےگانہ ہیں ۔ ان مفاہیم میں سر فہرست سیاست کا مفہوم ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بحث و مباحثے اور نقد واشکال کے لئے لوگوں کا سب سے محبوب و دلچسپ موضوع سیاست ہے ۔ اپنی سیاسی پارٹی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے اور اپنے حریف کو زیر کرنے کی خاطر لوگ کٹ مرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت سیاست سے لوگ بالکل اجنبی ہیں –آج ہمارے معاشرے میں جو جتنا مکار ،فریب کار ،دروغ گو اور چالاک ہوگا ، اس کو اتنا ہی بڑا سیاست دان سمجھا جاتا ہے ۔ جو قومی خزانے کو لوٹ کر لوگوں کو بے وقوف بنالے ہمارے لوگ اس کو عظیم سیاستدان سمجھتے ہیں ۔

آج کی دنیا میں آزادی بشر، حقوق بشر اور حفاظت حقوق بشر کی آڑھ میں صرف اپنے مفادات حاصل کر نے والے ،ظالم استکباری طاقتیں کی قربت حاصل کرنے والے سب سے زیادہ سیاست دان ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں کی سیاست بلاشبہ ظلم و ستم پر مبنی ہے ۔ اقلیت کے حقوق پامال کرنا ان کی حکومت اور سیاست کا طرہ امتیاز ہے ۔ جس کا نمونہ عرصہ دراز سے پاکستان میں شیعوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہے ۔ کون سا ستم ہے جو شیعوں پر نہ کیا گیا ہو ۔

اسلام آباد میں شیعہ کمیونیٹی قائد وحدت کی قیادت میں پورے ایک مہینے سے اپنے حقوق کے لئے فریاد کررہی ہیں ۔ حکومت وقت کو اپنے ظلم وستم کی جانب متوجہ کرا رہے ہیں ۔ مظلومین کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ عدل و انصاف کی طلب کے لئے مسلسل بھوک ہڑتال کر بیٹھے ہیں ۔ لیکن ظالم حکمران توجہ ہی نہیں کررہے ہیں ۔ مکمل طور پر نظر انداز کررہے ہیں ۔ وہ خواب خرگوش میں مست اپنی عیاشی میں سرگرم ہیں ۔

اگر ہمارے حکمران سیاست کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہوتے تو یہ صورتحال پیش نہ آتی ۔ کاش ہمارے حکمران حضرت علی(رض) کی حقیقی سیاست سے کچھ سیکھ لیتے ۔علی ابن ابی طالب (رض)کی نظر میں سیاست کا مفہوم بہت ہی عمیق ووسیع ہے ۔ آپ کے نزدیک سیاست سے مراد ہدایت و رہبری ، تدبیر امور ، اوردونوں جہاں میں انسان کی سعادت و خوش بختی کے لئے سامان فراہم کرنا ہے ۔

علی (رض)کی نظر میں ہرگز سیاست کا معنی تجبر ، زورگوئی ، خود رای ، اور قدرت کے بل بوتے پر دوسروں پر مسلط ہونا نہیں – علی (رض) نیک اور درست سیاست کو انسان کے لئے مایہ حیات سمجھتے ہیں ۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں ” حسن السیاسۃ قوام الرّعیہ ” اچھی سیاست شہروں کو محکم بنا دیتی ہے ۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں "حسن السیاسۃ یستدیم الریاسۃ” حسن تدبیر سیاست اور سرداری کو باقی رکھتے ہیں ۔ ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں ” من حسنت سیاستہ دامت ریاستہ ” جس کی حکمت عملی اچھی ہوگی اس کی ریاست اچھی ہوگی اس کی ریاست باقی رہے گی ۔ ( الملک سیاسۃ ) مملکت داری ہی سیاست ہے ۔

آپ کی نظر میں مادی طاقت یا قدرت کے زور سے سیاست دان بن کر لوگوں میں سیاست کرنا ایک لغو و بے ہودہ کام ہے ۔ علی (رض) کی سیاست کی بنیاد عدل وانصاف ، امنیت ، سکون وراحت ،ہر ایک کے حقوق کا پابند ، مناسب موقع پر مناسب حکمت عملی ، مظلوم کی حمایت ظالم کی مخالفت ، وغیرہ ہیں ۔ آپ کی سیاست فطرت انسان ، اور عقل و نقل کے عین مطابق ہے. کاش ہمارے حکمران علی (رض)کی حقیقی سیاست سے کچھ سیکھ لیتے ۔ آپ کی نظر میں دینی معیار پر معاشرے کی سرپرستی کرنا سیاست ہے ۔فرد و معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے تدبیروں کو بروئے کار لانے کا نام سیاست ہے ۔

علی (رض)نے اسلامی سیاست کے اصول اور قوانین بھی بیان فرمائے ہیں۔جوشائستہ سردار اور اپنے قوت بازو مالک اشتر کے نام ارسال کردہ مکتوب میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اس مکتوب کو اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں شامل کیا ہے اوت رہبر کبیر انقلاب امام خمینی َ نے انقلاب اسلامی کی اساس میں شامل کیا ہے ۔

کاش ہمارے حکمران علی(رض) کی حقیقی سیاست سے کچھ سیکھ لیتے ۔ آپ نے مالک اشتر سے فرمایا ” رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں ( اما اخ لک فی الدین او نظیر لک فی الخلق ) جن میں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ ان سے عفو درگزر سے کام لینا ۔ اس کی علت کے بیان میں آپ نے ایسا جملہ فرمایا جو سونے سے تحریر کرنے کے قابل ہے ۔ فرمایا اس لئے کہ تم ان ( عوام ) کے حاکم ہو ۔ اور تمہارے اوپر تمہارا امام حاکم ہے ۔ اور جس امام نے تمہیں والی بنایا ہے ، اس کے اوپر اللہ حاکم ہے ۔

علی (رض) نے قیامت تک آنے والے حکمرانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا ، کہ وہ اقتدار کے نشے میں مست ہوکر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ مطلق العنان حکمران بن چکےہیں ۔ ہر طرح کے احتساب سے وہ بالاتر و بری الذمہ ہیں ۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ بھی کسی کے سامنے جواب دہ ہیں ۔ مکتوب میں دوسرا دستورالعمل یہ بیان فرمایا ” کہ خبردار اپنی ذات اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں سے اپنے دل پسند افراد کے بارے میں حقوق اللہ و حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا توظالم ٹھہروگے۔

وطن عزیز پاکستان میں تواقربا پروری ، من پسند افراد دوست احباب ، دفتری ساتھی ، پارٹی کے رہنما وکارکنان کے تقرر ، رشوت لیکر نوکری دلوانا حکمرانوں کی پہچان کی ہیں۔ تیسرا دستورالعمل آپ نے یہ بیان فرمایا ” کہ تمہیں سب طریقوں سے ذیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین ہو ۔ انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل ہو ، رعایا کی اکثریت کی مرضی کے مطابق ہو ۔ چوتھا دستورالعمل یہ بیان فرمایا ” کہ خبردارعیب جوئی نہ کرنا ۔ حکمرانوں کو عیب جوئی سے منع فرمایا ہے ۔ پانچویں دستورالعمل یہ فرمایا ” کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے وزیر ، مشیر اور قریبی نہ بنائیں جو سابقہ بدکردار وں کے مشیر ، وزیر ۔۔ رہے ہوں.

یہ کچھ نمونے ہیں ۔ ہمارے حکمران تعصب وجہالت کی عینک اتار کر اگر اس دستاویز سے رہنمائی لیں تو عجیب نہیں وطن میں عدل وانصاف کا راج ہو۔ امن وآشتی کی حکومت ہو۔ محبت و اخوت کا پرچار ہو پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے ۔ کاش ہمارے حکمران علی (رض)کی حقیقی سیاست سے کچھ سیکھ لیتے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے