کون کہتا ہے کہ رہبر پاگل تھا۔۔۔؟

سن 90 کے اوائل کی بات ہے۔۔۔ جب میں ایف جی بوائز ہائی اسکول دنیور میں زیر تعلیم تھا۔ ابو امی سے لڑجھگڑ کر آٹھویں جماعت میں سائیکل خریدا اور سائیکل سواروں کے کلب کا حصہ بن گیا۔ گھر سے اسکول کا مسافت تقریبا 6 کلومیٹر تھا، صبح سویرے اسکول جانے والے سائیکل سواروں کا شاہراہ قراقرم پرراج ہوتا تھا۔ اسکول روانگی پر ایسا لگتا تھا جیسے فرانس میں ٹورڈی سائیکل کا ریس چل رہا ہو، گرمی ہو یا سردی یا ہو بارشں، بس سواری ہماری ایک ہی ہوتی تھی۔

اسکول میں آخری کلاس عربی اور فارسی کے ماہر استاد محترم سلطان محمود صاحب کی ہوتی تھی، موصوف کی یہ منطق آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کلاس روم کے بنسبت طلبہ کو اسکول سے ملحقہ باغ میں درختوں کے سایے تلے عربی پڑھانے کو ترجیح دیتے تھے۔ ہم 10 سے زائد طلبہ کا تعلق ایک ہی گاؤں سلطان آباد سے تھا اور کوشش ہوتی تھی کہ آخری صفوں میں بیٹھ جائیں تاکہ چھٹی ہوتے ہی رفو چکر ہوں۔۔۔ پڑھائی گئی تیل لینے۔۔۔ آخری صفوں میں ہمارا ایک ہی مشغلہ ہوتا تھا، کبھی استاد کو کنکر مارو تو کبھی پڑھائی میں مصروف دیگر ساتھیوں کو۔۔۔ یوں ٹیچر کی طرف سے مار کھانا ایک معمول بن چکا تھا۔

اسکول سے واپسی پر ہماری بیٹھک مرحوم رہبر کے ساتھ ہوتی تھی، رہبر کو ہمارے علاقے کے لوگ لابر کہہ کر پکارتے تھے، رہبر کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا لیکن باتیں بڑی ہی فلسفیانہ کیا کرتا تھا۔ رہبر میلے کچیلے لباس میں سٹرک کنارے بٹیھتا، لیکن بیٹھک کی کوئی جگہ معین نہ تھی۔ رہبر کو لباس اور رفع حاجت کی کوئی فکر تک نہ تھی، جو کچھ ہوتا ہوگا۔۔۔ قارئین خود ہی سمجھ لیں۔۔۔

ہم ٹولی کی شکل میں اکثر رہبر کے قریب جاکر آوازیں کستے، کنکر مارتے، غصہ ٹھنڈا ہونے پر پاس بیٹھ کر گپ شپ لگاتے۔۔۔ رہبر بلا کا زہین شخص تھا۔۔۔ گرد و نواح کے حالات و واقعات پربے لاگ تبصرہ کرتا، نقل اتارتا۔۔۔

رہبر کا ایک ہم عصر شاہ گل کے نام سےمشہور تھا، ہم شاہ گل کے بارے میں رہبر سے دریافت کرتے تو وہ جھٹ سے کہتا "وہ تو پاگل ہے، بہت گندا شخص ہے، نہ رفع حاجت کی فکر رہتی ہے نہ لباس کی۔۔۔”

گلگت بلتستان کی موجودہ اور سبالق حکومتوں کی کارکردگی دیکھ کر آج بھی مرحوم رہبر یاد آتا ہے۔۔ مجھے تو ہر سمت بے بسی نظر آتی ہے، اس کے برعکس مرکزی حکومت طاقت اور اقتدار کے نشے میں دھت نظر آتی ہے، حکمران اداروں کی اصلاح اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا تے۔ بس چلتی کا نام گاڑی جو ہے۔۔۔!!!

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حاجی شاہ بیگ نے میڈیا کے نمائندوں سے گتفگو میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلی حفیظ الرحمان کے پاس کوئی اختیار نہیں۔۔۔ تمام فیصلے بیوروکریسی کرتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مالی سال 2015-16 میں 6 بلین کا ترقیاتی فنڈ حکومتی نااہلی کے سبب خرچ نہ ہوپایا ہے۔ جبکہ وزیر اعلی کا یہ دعوی ہے کہ 10 بلین کے ترقیاتی بجٹ میں سے 7 بلین کے پروجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی بنچوں سے آفسر شاہی کی مداخلت کے خلاف آوازیں بھی اٹھی ہیں۔ پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قانون ساز اسمبلی جعفراللہ کا کہنا تھا کہ سیکریٹریز سیاستدانوں سے زیادہ بااختیار ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر سطح پر بیوروکریسی کی مداخلت کے باعث حکومت ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل میں ناکام رہی ہے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکریسی حکومت کو ناکام بنانے کے درپے ہے۔

بعض معتبر حلقوں کا کہنا ہے کہ امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے اطلاق کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ منتخب نمائندے بااختیار ہونگے، لیکن حکمران جماعت مسلم لیگ نواز اور حزب اختلاف کے اراکین اختیارات کے حوالے سے کم و بیش ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو بھی شاید گلگت بلتستان میں ایک کمزور سیاسی ڈھانچہ سوٹ کرتا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں اور وفاق میں مقامی حکومتیں عمل میں آئی ہیں، ہر صوبے نے مقامی حکومتوں کے حوالے سے اپنا قانون بنایا ہے، اختیارات اور اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے، تاہم لوکل گورنمنٹ کا پہیہ ضرور چلے گا اور رفتہ رفتہ عوام کو حق حکمرانی مل ہی جائے گی۔

گلگت بلتستان میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے حوالے سے نہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اقدامات اٹھائے اور نہ ہی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔۔۔!!! پاکستان کے قیام کو 7 عشرے مکمل ہونے والے ہیں، لیکن آج بھی عوام حق حکمرانی سے محروم ہے، فصیلے عوامی نمائندے نہیں بلکہ کوئی اور کرتا ہے۔۔۔!!! اس لیے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوں۔۔۔ کہ کون کہتا ہے کہ رہبر پاگل تھا۔۔۔؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے