پچھلے کئی ماہ سے پاک اور امریکہ تعلقات میں عدم اعتمادنظر آرہا ہے ڈورن حملہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ خلیج مزید بڑھ گئی ہے۔ جس سے پاک افغان مصالحتی عمل کے دور رس منفی اثرات مرتب ہونگے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا ہر فورم پر ساتھ دیا ہے، جبکہ امریکہ نے اپنے مقاصد اور ہداف کی تکمیل کے لئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ علاقائی تبدیلی کے ساتھ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خود مختاری اور ملکی سلامتی پرکوئی سمجھوتا نہ کریں اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات برابری کے سطح پر قائم رکھیں۔ بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لئے تمام دوست ممالک کے ساتھ رابطے بڑھا نے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ سعودی عرب، ایران، قطر،ترکی کے ممالک میں وزیر اعظم نریندرمودی نے وفدوں کے سطح پر بہت سے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ امریکہ اس خطے کے اندر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے پہلے ہی اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال چکا ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی 2014 میں اقتدار میں آ نے کے بعد امریکہ کے چار دورے کر چکے ہیں اس دوران نریندرمودی کی صدر اوباما سے سات مرتبہ ملاقات ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنے ہر غیر ملکی دورے کے دوران پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے ہر فورم اور ہر حربہ آزمایا ہے۔ جس کی تازہ مثال موصوف کا امریکی ایوان میں خطاب ہے، جس میں ہر بار کی طرح ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کی جنگ میں جانی، مالی، معاشی طور پر بے انتہا قربانیں پیش کی ہیں۔ ہماری افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سول سوسائٹی نے بہت بڑی تعداد میں اپنی جانوں کے نظرانے پیش کئے۔ ہماری قوم نے اقوام عالم پر ثابت کر دیا پاکستانی قوم اندرونی اور بیرونی ہر سطح پر مل کر دہشت گردی کا مقابلہ ایک چیلنج کے طور پر کر رہی ہے،آج بھی پاکستانی عوام کے حوصلے جوان ہیں۔
21 مئی کو امریکہ نے ایران سے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والے طالبان کمانڈر ملا منصور اختر کو ڈورن حملے میں ہلاک کر دیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکی سفیر سے سخت انداز میں باز پرس کی اور واضح طور پر بتایا کہ ڈورن حملہ پاکستان کی جغرافیائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے جس سے پاکستان اور امریکہ تعلقات میں اعتماد کی فضا کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ تیرہ سالوں کے اندر اایک محتاط اندازے کے مطابق425 کے قریب ڈرون حملے کئے ہیں جن میں تقریبا 4 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
امریکہ صدربارک اوباما کے مشیر پیٹر لوائے کی قیادت میں تین رکنی وفد نے پہلے آرمی چیف اور پھر مشیر خارجہ سر تاج عزیز سے وفود کی سطح پر ملاقاتیں کیں۔ امریکی وفدمیں پاکستان اور افغانستان کے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈاولسن، میتھیو ڈیوڈاور پاکستان میں موجود امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل بھی شامل ہوئے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاکستان کی سلامتی اور خود مختار ی کے تقدس کو برقرار رکھنے کا عزم دوراہا اور ڈُ و مُو ر کے مطالبے پر نو مُور کا پیغام سنایا۔ آرمی چیف نے بتایا کہ ڈورن حملے سے ضرب غضب کی کامیابی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔پاکستان نے امریکی وفد سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کل عدم تحریک طالبان کے کمانڈر ملا فضل للہ (ٹی ٹی پی) کے خلاف کاروائی کا سوال بھی اٹھایا۔ پاکستان اور امریکہ اسی وقت اکٹھے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوشش کر سکتے ہیں جب دو نوں اطراف سے مل کر کوشش کی جائے۔ بھارت کی اسٹیٹ دہشت گردی(را، این ڈی ایس) کو سختی سے کچلنے کے ساتھ انٹرنیشنل فورم پر آواز اٹھانے کا عزم دوراہا۔
پاکستان نے وفد کو امریکہ کی طرف سے بھارت کی نیو کلیئر سپلائی گروپ میں شمولیت کی حمایت کر نے پر پاکستان کے تحضظات سے آگاہ کیا جس سے پورے خطے میں عدم توازن پیدا ہو گا۔ پاکستان نے امریکی وفد کو بھارتی دہشت گردی کے ثبوت فراہم کیے ہیں، جس کے ساتھ انڈیا آرمی کے گرفتار ایجنٹ کلبوشن یاددو کے قبولی بیان کی ویڈیو بھی دکھائی۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے مل کر اقدام کرنے کی کوشش پر روز دیا گیا جو اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کو برابر ی کی بنیاد پر تمام مساوی رائٹرز کے ساتھ تمام فیصلوں میں شامل کیا جائے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں آج بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہیں جو پچھلے تین دہائیوں سے مقیم ہیں جس کا بوجھ پاکستان کے کندھوں پر ہے۔
امریکی سلامتی کے مشیر پیٹر لوائے نے کہا کہ پاکستان اس خطے میں امریکہ کا اہم اتحادی ہونے کے ساتھ بہترین دوست ملک ہے، امریکہ ان روابطوں کو مزید آگے بڑھاناچاہتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف جب پاکستا ن نے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کا معاملہ اٹھایا تو امریکی وفد نے انھیں صاف الفاظ می ہری جھنڈی دیکھائی اور بتایا کہ گانکریس کے ارکان پاکستان کی ٹھوس کاروائیوں کے بغیر فوجی امداد دینے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکہ وفد نے پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے ماضی میں کئی مرتبہ افغانستان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے موثر جامع سیکورٹی چیکنگ کا نظام بنائے جس پر پاکستان اپنے ہر ممکن تعاون اور مدد کی پیشکش کر چکا ہے۔ جس سے دونوں ممالک کے اندر سیکورٹی کے مسائل کم اور امن کی فضا قائم ہو گی۔ پاکستان نے متعدد بار افغانستان سے درخواست کی ہے کہ وہ دہشت گرد وں کی آزادانہ نقل و حرکت کو روکنے کے لئے مثبت اقدامات اٹھائے۔ اسی سلسلے میں پاکستان حکومت نے بائیو میڑک سسٹم،ریکارڈ کیپنگ سمیت کئی سیکورٹی پلان اور منصوبے افغان گورنمنٹ کے ساتھ طے کرنے کی کوشش کی۔ افغانستان نے کبھی ایسے منصوبے، پلان پر حوصلہ افزاء جواب نہیں دیا۔ پاکستان نے ہر دہشت گردی کے واقعے کے اوپر افغان حکومت کو آگاہ کیا جس کے اوپر کوئی ایکشن نظر نہیں آیا، بلکہ کئی مرتبہ افغانی صدر نے اپنے بیانات میں پاکستان کو موردالزام ٹھہرا۔
پاکستان اور افغانستان کی کشیدہ صورتحال پر ماضی میں پاکستان نے تورخم بارڈ کو سیل کر دیا، جو تقریبا ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک بند رہاپھر افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے پاکستان میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ رابطے بحال ہوئے۔
اے۔پی۔ایس سکول واقعہ کے بعد آرمی چیف نے افغانستان جا کر دہشت گردی کے ثبوت دئیے، ان کو باور کرایا افغانستان کی سر زمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے جہاں سے بیٹھ کر دہشت گرد پلاننگ کے ساتھ آزادانہ طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی ثناء میں پاکستانی بارڈ سیکورٹی فورس نے تورخم بارڈ پر اپنی سرحد سے 37 کلومیڑ اندر کی طرف گیٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا، جس کا باقاعدہ طور پر افغان حکومت کو بتایا گیاجس کا مقصد غیر قانونی نقل و حرکت کے ساتھ دہشت گردوں کو روکنے کے ہدائف شامل ہیں۔ افغان حکومت کو اس سے بہت تشویش ہوئی وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے شہریوں کو کسی چیکنگ نیٹ ورک میں گزر نا پڑے، اس لئے افغان بارڈ فورسز نے پاکستان بارڈز فورس پر حملہ کر کے اپنی ناراضگی کے اظہار کے ساتھ کچھ دوسری قوتوں کو بھی پیغام دیا ہے۔
پاک چین راہ داری منصوبہ دونوں ممالک کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک کے انتہائی قریب گزر گاہ ہے۔ اسکی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہ بندر گاہ پورے خطے کی تقدیر بدلے گی۔ گوادر پورٹ دنیا کی تیسری گہری ترین بندگاہ ہے،یہاں سے دنیا میں بڑے پیمانے پر تیل سپلائی کرنے والی لائن آبنائے ہرمز گزرتی ہے۔ یہ بندرگاہ پورے سینٹر ایشاء کے ممالک چین، روس، بھارت کے لئے بہت ہی موثر ثابت ہو گی۔ روس کی بندرگاہیں سردیوں کے موسم میں برف باری کے باعث کام بند کردیتی ہیں، روس بھی گوادر پورٹ سے مستفید ہو سکتاہے۔
پاک چین راہ داری منصو بے کی تکمیل سے پاکستان اور چین دونوں ممالک کو بے انتہا فوائدحاصل ہونگے۔ پاکستان و چین کی گوادر پورٹ کا قیام اس خطے کا ایک بہت بڑا دفاعی مرکز ہے۔ گوادر پورٹ کی تکمیل سے پاکستان کے ساتھ چین کو بھی بحرہ عرب سے مشرق وسطی میں جانے کی رسائی ملے گی۔ پاک چین راہ داری منصوبہ سے مشرق وسطی کے کئی ممالک کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں ہیں جن میں متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، کویت، عراق، یمن اور ایران شامل ہیں، ان ممالک کی منڈیوں میں پاکستان اور چین اپنی اپنی منصوعات پیش کرسکے گئے۔ پاکستان کو جہاں اس منصوبے سے بے حد تک فائدہ ملے گا وہاں چین کو بھی مالی و دفاعی فوائد میسر آئیں گئے۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہو نگے وہاں معاشی، اقتصادی اور دفاعی طور پر ہم مستحکم ہونگے۔
پاک چین راہ داری سے بھارت کا انٹرنیشنل مارکیٹ میں کنٹرول کے ساتھ رول بھی کم ہوگا، بحرہ عرب کے اندر نئے معاشی حب کا قیام عمل میں آئے گا۔ چین بھارت کی معاشی، اقتصادی اور دفاعی ترقی کا مقابلہ بہتر طور پر کر سکے گا۔ اس راہ داری کے قائم ہونے سے جہاں بھارتی جارحیت کا خاتمہ ہو گا وہاں بھارت کا پورے خطے میں پھلنا پھولنا بھی سکڑ جائے گا۔ پاک چین راہ داری منصوبہ پر کئی عالمی طاقتوں کے سازش کرنے کی بوآرہی ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں کی ہی کوشش ہے کہ اس منصوبے کو رول بیک کیا جائے۔ دونوں ممالک کی پس پردہ پالیسی نظر آتی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔