جنگ نہیں دل جیتنے ہیں

افغانستان کے ساتھ جنگ نہیں امن کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے،کچھ جوشیلے لوگ افغانیوں کو سبق سکھانے کی باتیں کرتے ہیں، کوئی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو زبردستی نکال باہر کرنے کے مشورے دے رہے ہیں،لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ پاکستان تاریخ کے نازک موڑ پہ کھڑا ہے۔۔ہمیں بھوکے ننگے افغانیوں کو اشتعال دلا کر مزید بھارت کی جھولی میں نہیں ڈالنا بلکہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہے۔۔خدانخواستہ پاک افغان فورسز الجھ گئیں تو اس سے پاکستان کو ہی نقصان ہوناہے ۔۔ اس حقیقت سے ہماری سول اور عسکری قیادت اچھی طرح آگاہ ہے کہ پڑوسی ملک پہلے ہی افغان سرزمین کو استعمال کرکے ہمارے خلاف صرف قبائلی علاقوں میں ہی نہیں ،بلوچستان اور سندھ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کا زہر گھول رہاہ اور سوچیں اگر پاک افغان جنگ چھڑ گئی تو بھوکے ننگے افغانیوں کوبھارت اور امریکہ ڈالر دے دے کر ہمارے خلاف کس حد تک جنگ میں جھونکیں گے ۔

اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کو تباہ کرنے کیلئے پاکستان مخالف قوتوں کو موقع مل جائے گا۔ جو ابھی تک پس پردہ پاکستان مخالف سازشیں کررہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ کھل کر پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے سرگرم ہو جائیں گے۔۔فرض کریں ہماری مضبوط مسلح افواج اور عسکری طاقت افغان فورسز کو پیچھے دھکیلتی ہوئی کابل تک بھی لے جائیں ۔۔ تو پھر کیا ہوگا۔۔ کیا ہم کابل پر قبضہ کرلیں گے؟۔۔یہ بھی ممکن نہیں ہے۔۔ جس افغانستان کو روس ، امریکہ اور نیٹو افواج فتح نہیں کرسکے اسے کوئی اور کیسے شکست دے سکتاہے۔۔افغانی تو صدیوں سے حالت جنگ میں ہیں۔۔ ان کی متعدد نسلیں آگ اور بارود کے کھیل میں تباہ ہوچکیں۔۔مگر بد قسمتی سے افغانیوں کو مدبر اور با تدبیر قیادت میسر نہیں آ سکی۔

گزشتہ دو دہائیوں سے جنگ کے ساتھ ساتھ افغان قیادت کا مسلہ بھوک اور افلاس بھی ہے۔۔وہ کہتے ہیں نا ۔۔ کسی نے بھوکے سے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ۔۔ جواب آیا چار روٹیاں۔۔ بس یہی چار روٹیاں افغانیوں کا فی الوقت مسلہ ہے۔۔افغان فورسز کو بھارت میں مفت ٹریننگ مل جائے۔۔ بسیں دے دی جائیں۔۔ انفراسٹرکچر بنا کر دے دیا جائے تو افغان قیادت کیلئے یہ کافی ہے۔۔ پہلے تو امریکہ خود ہی افغانستان چھوڑنے کو تیار نہیں ہے اور اوپر سے افغان قیادت بھی نہیں چاہتی کہ امریکہ جائے۔۔ کیونکہ امریکی ان کیلئے لڑ بھی رہے ہیں اور خرچے بھی پورے کررہے ہیں۔۔ رہی بات خودی کی تو وہ 1979کو تب ختم ہو گئی تھی جب روسی فورسز دریائے آمو عبور کرتی ہوئی کابل تک آ پہنچی تھیں۔۔ پھردنیا بھر کی طاقتوں نے افغانستان کو میدان جنگ بنایا ۔۔ تمام ہی بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کی آنکھ سے شطرنج کی عملی صورت میں بچھی بساط پر اپنے اپنے مہرے کھسکائے۔۔ روس کو پسپا کرکے امریکہ کو حقیقی کامیابی ملی۔۔ ہم بھی بغلیں بجاتے رہے کہ دنیا کی دوسری ایٹمی طاقت کو ہم نے شکست د ے دی ہے ۔۔ لیکن ہم نے امریکہ سے مل کر انتہا پسندی اور اسلحہ کی دوڑ شروع کرنے کا جو بیج بویا تھا وہ آج تک کاٹ رہے ہیں۔۔اب جب ہمیں بھارت کے خلاف مضبوط ہونا ہے۔۔ امریکی سازشوں کے خلاف چین سے مل کر خطے میں بقا کی جنگ لڑنی ہے۔۔۔ تو ایسے میں یہ کسی بھی طرح سے دانائی نہیں ہے کہ ہم اس جنگ میں الجھ جائیں جہاں سے ہمیں کچھ نہیں
ملنا.

جوشیلے لوگ جن افغان مہاجرین کو زبردستی نکالنے کے مشورے مل رہے ہیں اگر ہم 2640کلو میٹر طویل ڈیورنڈ لائن پر افغانستان سے الجھ گئے تو پھرڈیورنڈ لائن کی کشیدگی کے ساتھ ساتھ یہی افعان مہاجرین ہمارے لئے چلتے پھرتے بم بن جائیں گے۔۔ ہم پہلے ہی طویل جد و جہد کے بعدخود کش حملوں سے تقریباً با ہر آئے ہیں۔۔قبائلی علاقوں سے گند صفا کرکے پاک فوج دو سالہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے ثمر سمیٹنے جارہی ہے ایسے میں نئی مصیبت گلے ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔۔خدانخواستہ ہم الجھ گئے تو پھر ہم کو ایسے کئی اور آپریشن ضرب عضب کرنے کی ضرورت پڑ جائے گی۔۔اپنی بقاکیلئے رسک لینا ہی پڑے تو ہمیں افغانستان سے الجھنے کے بجائے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرون کو مار گرانا چایئے۔۔ یہ امر ہمارے خوف کوبھی دور کرے گا اور قوم کو بھی متحد کردے گا۔

افغانستان ہمارا ایک ایسا غریب رشتہ دار ہے جس کے دس بچے ہوں اور اس کے پاس کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہ ہو۔۔ ایسا رشتہ دار اپنی بھوک اور ننگ سے تنگ آ کر کرو ڑ پتی بھائی کو برباد کردیتاہے۔۔ ہم نے اپنی طاقت کو بڑے دشمنوں کیلئے بچا کر رکھنا ہے۔۔ ایک لاحاصل جنگ میں الجھنے سے بہتر ہے حکمت سے کام لیں۔۔جیسے پاک فوج نے انگور اڈہ چیک پوسٹ اور طورخم جلال آباد روڈ کی تعمیر کرکے مثبت قدم سے اثرو رسوخ بنانے کی کوشش کی ۔۔ پاکستان کو افغانستان کی غلط فہمی دور کرنے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کیلئے تھینک ٹینک کی ضرورت ہے جو افغانیوں سے الجھے بغیر اپنے مقاصد اور مفادات کا تحفظ کرسکے۔۔ہم ایسی جنگ میں کیوں
الجھیں جس میں خدشہ ہو کہ بردار اسلامی ملک کے جہازوں اور ٹینکوں میں بھارتی اور یہودی بیٹھ کر ہم سے جنگ کریں گے۔۔

[pullquote]ڈیورنڈ لائن کوئی آج کا تنازعہ نہیں ہے 1893 میں اس وقت برٹش انڈین گورنمنٹ اور گورنمنٹ آف افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ کیا،افغانستان کی طرف سے ابتدا میں امیر عبد الرحمن نے معاہدے پر دستخط کیے اور بعد میں ایک نہیں تین تین بادشاہوں کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کیے۔‘یہ بھی حقیقت ہے کہ ۔ ’اس معاہدے میں کہیں یہ نہیں لکھا گیا تھا کہ پانچ میل کے علاقے کے لوگ آزادانہ طور پر سرحد کے دونوں جانب جا سکیں گے یہ صرف ایک زبانی بات چیت تھی۔‘
[/pullquote]
[pullquote]

60 سے 70 سال سے پاکستان اور افغانستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔۔ اس پار افغان امگریشن اور اس طرف پاکستانی امگریشن کی ٹیمیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ لیکن دہشتگردی کے پھیلے جال کو سمیٹنے کیلئے جب پاکستان نے اپنی سرزمین پر چیک پوسٹ یا گیٹ بنانے کاسلسلہ شروع کیا تو افغان فورسز کو ہی نہیں پاکستان دشمن قوتوں کو بھی موقع ملا کہ وہ یہاں آگ اورخون کا کھیل شروع کرسکتی ہیں۔۔ہمیں اپنے مطلب سے کام رکھنا چایئے۔۔ حکمت اور تدبر سے پاکستان مخالف قوتوں کے تخلیق کردہ تنازعہ کا حل ڈھونڈنا چایئے۔۔ تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے جنگ نہ کرنے کا مشورہ خود کو کمزور سمجھنا ہے تو ایسا نہیں ہے ۔۔پاک فوج اور پوری قوم بھارت کو بھی شکست دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔۔ لیکن ابھی وقت نہیں ہے لڑائی کا۔۔ ابھی ہم نے پاک چائنہ اقتصادی راہداری کو مکمل کرناہے۔ چین سے استوار دوستی کے رشتے مزید مضبوط بنانے ہیں۔۔امریکہ ، بھارت اور پاکستان دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکا م بنا کر افغانستان میں اپنا اثر ر رسوخ بڑھانا ہے ۔افغانستان سے لڑائی یا تنازعات کو ہوا دینا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے