پکچرابھی باقی ہے

ایک صاحب مارکیٹنگ کا کام کرتے تھے اور اس سلسلہ میں اکثر شہر سے باہر بھی رہتے ۔۔ کبھی چار دن کبھی کبھی پانچ دن اور کبھی تو ایک ایک ہفتہ بھی گزر جاتا۔ ایک مرتبہ پھر وہ صاحب دوسرے شہر کے لیے روانہ ہوئے تو بیوی نے پوچھا کب آئیں گے۔ تو سیلز مین نے کہا چار دن تو لگ ہی جائیں گے۔بیوی بولی۔۔ آئی ول مس یو۔۔

سیلز مین صاحب کا کام تین دن سے پہلے ختم ہو گیا تو وہ اپنی بیوی کو سرپرائز دینے ایک دن پہلے ہی پہنچ گئے کہ کہیں بیوی انہیں مس نہ کر رہی ہو۔۔۔ گھر گئے تو معلوم ہوا ۔۔۔ بیوی کے ساتھ کمرے میں کوئی غیر مرد ہے۔۔ بہت غصہ آیا اور گھر سے باہر آ کے اپنے سسر کو فون کیا، صورتحال سے آگاہ کیا اور بولے اب میرا گزارا نہیں ہو سکتا اسے آ کے لے جائیے۔۔

سسر نے اطمینان سے بات سنی اور بولے زیادہ جذباتی نہ بنو، ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔۔ میں پوچھ کر تمہیں فون کرتا ہوں۔۔ پانچ منٹ بعد سسر جی کا فون آیا اور بڑے چہکتے ہوئے بولے: دیکھا میں کہتا تھا ناں۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔۔ میں نے پوچھا ہے اپنی بیٹی سے ۔ اس نے بتایا کہ تم نے چار دن بعد آنا تھا، تیسرے دن ہی آ گئے ۔۔ یہ غلط فہمی نہیں تو اور کیا ہے۔

معلوم نہیں یہ لطیفہ مجھے بی بی سی اردو پہ یہ خبر پڑھنے کے بعد سے کیوں یاد آیا۔۔ خبر تو بڑی سادہ سی تھی کہ الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان نے ممبر الیکشن کمیشن پنجاب ریاض کیا نی سے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگانے پر معافی مانگ لی۔مجھے کیوں یوں لگ رہا ہے کہ افضل خان ہی وہ شخص ہے جسے غلط فہمی ہو گئی تھی۔۔ عدالت میں غیر مشروط معافی مانگ کر افضل خان نے دراصل یہی تو کہا ہے کہ انہیں غلط فہمی ہو گئی تھی الیکشن کمیشن کے کردار کے حوالہ سے ، ریاض کیانی کے حوالہ سے ، دھاندلی کے حوالہ سے۔۔وغیرہ وغیرہ

کیا بات ہے ۔۔ جناب، اتنا سادہ سا قانون ہے ہمارے ملک میں کسی کی سربازار پگڑی اچھال دو، اسے چور ، ڈاکو، کرپٹ سب کچھ کہہ دو۔۔ وہ عدالت جائے تو معذرت کر لو۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ کیا واقعی سب ٹھیک ہو جائے گا؟کیا آپ کسی پر سرعام الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے کچھ عرصہ بعد اس سے عدالت میں معافی مانگ لیں تو کیا سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا اس کی عزت پر لگا داغ ایک دم دھل جائے گا۔۔ یا پھر ضرورت نہیں کیونکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔۔

میں بہت حیران ہوتا تھا، صحافت کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناتے جب میں دھرنا کے دنوں میں ٹی وی چینلوں پر اس طرح کے الزامیہ پروگرام دیکھا کرتا تو بہت حیرت ہوتی ۔۔ ایک ادارے کے ایک ذمہ دار عہدہ پر کام کرنے والے شخص کے منہ سے اسی ادارے کے حوالہ سے الزامات سمجھ آتے تھے مگر جب کوئی ان سے پوچھتا تھا کہ کوئی ثبوت ہے تو وہ اپنی گردن ہلا دیتے کہ ثبوت نہیں ہے۔۔ واہ قربان جاؤں۔۔ ثبوت نہیں مگر الزام تو ہے۔ کیا کہنے جناب، لیکن وہ زمانہ تھا کہ تمام ٹی وی چینل بھی سوچ بیٹھے تھے کہ زمان پارک اور ماڈل ٹاؤن لاہور سے چلنے والی آندھی ایوان وزیر اعظم پہنچ کر ہی تھمے گی۔۔ امپائر کی انگلی اب اٹھی کہ اب۔۔ اس لیے عمران خان کے ٹہلنے سے لے کر طاہر القادری کے منہ سے نکلنے والے متبرک جھاگ کو صاف کرنے تک تمام مناظر براہ راست تمام چینل براہ راست دکھاتے رہے اور اس وقت جو لوگ بھی حکومت پر، 2013 کے الیکشن پر اور نواز شریف پر الزامات لگاتے ان کی ریٹنگ چھت پھاڑ ہوا کرتی تھی۔۔ لیکن پھر انقلاب نہیں آیا مگر بلاوا آگیا، قادری صاحب کا بلاوا کینیڈا شریف سے آیا۔۔ جبکہ عمران خان کا بلاوا بھابھی شریف سے۔

دونوں کزنز جو بچھڑنے کے کئی سال بعد ملے تھے ایک بار پھر جدا ہوئے۔۔ مگر رکیے صاحب ، دونوں چچا، تایا یا کوئی اور زاد بھائی آپس میں پھر ملنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔۔لیکن ایک طرف دو بھائی پھر ملن کی تیاری میں ہیں تو دوسری جانب ولن کی جانب سے عدالت میں دائر کیس پر دونوں بھائیوں کے گواہ افضل خان کی معافی۔۔شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔۔ مگر کہیں جائیے گا نہیں۔۔ کیونکہ جلد ہی شاندار افتتاح ہو گا، ایکشن اور سسپنس سے بھرپور ڈرامہ کا ۔۔ ڈی چوک کی بڑی سکرین پر۔

شاید اس مرتبہ مہمان اداکاروں میں افضل خان ہوں نہ ہی مبشر لقمان۔۔ لیکن میرے دوست پکچر ابھی باقی ہے۔۔ جو ہم تم مل کر دیکھیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے