دل تو بہت چاہ رہا ہے کہ مفتی عبدالقوی اور محترمہ قندیل بلوچ صاحبہ کی سیلفیوں پر کچھ کہوں۔۔ لیکن ہمت نہیں پڑ رہی ۔۔ مفتی قوی ایک تو عالم دین ٹھہرے کہ جناب ایک عالم دین کا قصہ بیان کرنے پر اگر حامد میر کو توہین کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں، اپنے بڑے بھائی حامد میر کو اللہ سلامت رکھے ان کو تو گارڈ بھی حاصل ہے۔ میں تو تنخواہ میں اپنا خرچ مشکل سے چلاتا ہوں گارڈ کیسے رکھوں گا۔۔
پھر اس پہ ان عالم دین کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق ہونا جس کے لیے بس جنت ہی لکھ دی گئی ہے ۔۔ اس جماعت میں جانے والا یا اس کی تائید و حمایت کرنے والا چاہے جتنا بھی کرپٹ رہا ہو، چور ہو، ڈاکو ہو۔۔ بدکار ہو یا بد کردار ہو۔۔ بس تمام داغ دھل جاتے ہیں کیونکہ اس جماعت کا نعرہ ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔۔
لکھنا تو چاہتا ہوں مگر پھر سوچتا ہوں اپنی قندیل بی بی اگلے برس کسی ٹی وی چینل پر رمضان کی ٹرانسمیشن کر رہی ہو گی اور اس کے ہاتھ جب دعا کے لیے اٹھیں گے تو وہ دنیا کے لیے خیر و برکت مانگے گی اور میں ان فیوض و برکات سے محروم رہ جاؤں گا۔۔ اس لیے میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ خاتون تو پہلے شاہد آفریدی کے پیچھے پڑی پھر عمران خان کے پیچھے اور پھر عمران بھائی ہاتھ نہیں آئے تو اس نے سوچا کہ چلو لیلیٰ نہ سہی۔۔۔ لیلیٰ کا مولوی ہی سہی۔۔
اس لیے قندیل بلوچ قدم بڑھاؤ۔۔ اس ملک کا میڈیا آپ کے ساتھ ہے۔ جیسے وہ ایان علی کے ساتھ ہے۔۔ ایان علی سے یاد آیا ۔۔ اس خاتون کے ساتھ بھی کسی کی پکی دشمنی ہے ورنہ یہاں سے ملک کا آئین توڑنے والا۔۔۔ کیسے عدالتوں اور حکومتوں کا تمسخر اڑاتا رخصت ہوا۔۔ اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے عدالت نے بال حکومت کی کورٹ میں پھینکی تھی کیونکہ وہ یہ بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔۔ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی جو بندھی ہوتی ہے اس لیے اس نے سوچا حکومت کی آنکھیں تو کھلی ہوتی ہیں اور دھرنے کے بعد تو اور بھی زیادہ کھل گئی تھیں اس لیے ان کو نظر صاف آتا ہے ۔۔ مگر عدالت یہ بھول گئی کہ آنکھوں پر پٹی نہیں ہے مگر ہاتھوں میں زنجیر ضرور ہے۔
خیر وہ مضبوط تھا نکل گیا۔ ایان علی ٹھہری صنف نازک ، اس سے کام لینے والے اسے وکیل تو بڑا کر کے دے سکتے ہیں عدالت جاتے ہوئے اس کا روٹ تبدیل کروا کے اسے کہیں اور نہیں پہنچا سکتے، بہرحال ایان علی کو دوسروں کے لیے سبق بنایا جا رہا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
اصل معاملہ تو جناب وہ ہے جناب جس کا کوئی تذکرہ بھی نہیں کر رہا۔ دو وڈیوز آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک میں شرجیل میمن لندن کے کسی ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ہیں تو ایک رننگ کمنٹری کرتا شخص اس کو گالیاں دیتا ہے وہ مڑ کے دیکھتا بھی ہے مگر کسی تبصرہ کے بغیر نکل جاتا ہے۔۔ دوسری وڈیو بھی تقریباً ایسی ہی ہے اس میں بھی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے کو ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے پر اپنی گلابی انگریزی میں خوب گالیاں دیتا ہے۔۔ حسن نواز واپس آتا ہے اور وہ بھی گلابی بلکہ پنجابی نما انگریزی میں اپنے تئیں جواب دیتا ہے مگر وہ اس جواب سے مطمئن نہیں دکھائی دیتا اور پھر سے اس کے پیچھے چلتے ہوئے آوازے کستا رہتا ہے وہ بھی اسی گلابی انگریزی میں۔
یہ دو وڈیوز نہیں پیغام ہے سب کے لیے ۔۔۔ پیغام یہ ہے کہ جناب ۔۔ اگر آج کسی اور کے پیچھے چلتے یہ لوگ کیمرے پکڑ کر چل رہے ہیں تو کل آپ کے پیچھے بھی ہوں گے، وقت بڑا ظالم ہوتا ہے۔۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔۔ آج آپ سیاست میں جو بدتمیزی کا بیج بو رہے ہیں کل آپ اس کی کھڑی فصل کاٹیں گے۔۔ کیونکہ شاید آپ بہت ایماندار ہوں مگر آپ کے دائیں بائیں وہی ہیں جو کئی تھالیوں سے لڑھکنے کے بعد آپ تک پہنچے ہیں۔۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔
کرپشن کے خلاف آپ کا پیغام اچھا ہے مگر اپنے ساتھ کھڑے کرپٹ لوگوں کو ایسے موقع پر اپنے کندھے کے پیچھے چھپا کر آپ اپنے پیچھے فلم بنانے والے تیار کر رہے ہیں جو مستقبل میں آپ کے کسی ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے پر گلابی انگریزی میں نہیں بلکہ ٹھیٹھ پنجابی میں آپ کی شان میں قصیدے پڑھیں گے۔
لوگ کرپشن کے خلاف ہیں مگر ایسے احتساب کو نہیں مانتے جس میں آپ اپنے ساتھیوں کی کرپشن کو جائز قرار دے دیں اور دوسروں کی کرپشن پر انہیں پھانسی دینے کا مطالبہ کریں، دوہرا معیار ترک کر کے آگے بڑھیں تو شاید ہم ایسے لوگ بھی آپ کے ساتھ چلیں مگر جب آپ کے ساتھ چلنے والوں میں سب پرانے فرشتے ہوں گے تو ہم انسانوں کی جگہ کیسے بنے گی۔۔ سوچئے گا ضرور۔۔۔۔