اٹھو! کاخ امراء کے درودیوار کو ہلا دو

میاں نواز شریف خود غرض لوگوں کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں ۔ خود غرض لوگ اس کوشش میں ہیں کہ ان کے ساتھ چسپاں رہیں۔ کوئی انہیں ’’پانہ میاں‘‘ بحران سے نکلنے کیلئے راستے دکھا رہا ہے اور کوئی اپنا اثر جتاتے ہوئے تمام زخموں کو مندمل کرنے کا یقین دلا رہا ہے۔ کوئی انہیں باختیار کرنے اور ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہا ہے۔

مشورہ دینے والوں کی اپنی اغراض ہیں ، نواز شریف کے خاندان کا نام اگر ’’پانہ میاں‘‘سکینڈل میں نہ آتا تو ان خودغرضوں کو کوئی گھاس تک بھی نہ ڈالتا۔ میاں نواز شریف اگر ان کی باتیں مانتے ہیں تو ان کی اپنی غرض ہے گدی پر بیٹھے رہنے کی۔گویا دونوں طرف غرض کے غلام ہیں۔ شریف خاندان بھلے یہ کہے کہ ہم نے کرپشن نہیں کی وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، ان میں اخلاص اور ایمانداری کی کمی ہے۔ وہ جتنا مرضی میڈیا پر پیسہ لگا کر اشتہار بازی کریں لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کہ عوام کی آواز کام کرنے والوں کے ایمان اور اخلاص کا سب سے بڑا ’’تھرما میٹر‘‘ ہے۔ کام کرنے والوں کا پتہ عوام کی آواز سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔

سچ بات یہ ہے کہ پاکستان عوام حکمرانوں کو ’’لٹیرا‘‘ سمجھتی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ عوام کی آواز کبھی غلط نہیں ہوتی۔ کام کرنے والوں کا جیسا اعمال نامہ ہو گا ویسی ہی ان کے متعلق عوام میں شہرت ہو گی۔ عبدالستار ایدھی اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی شخص سے یہ نہیں کہا کہ میں کسی انسانیت کی خدمت کر رہا ہوں اور نیک ہوں۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو ہزار اختلافات کے باوجود آپ کو نیک نہ سمجھے۔ برعکس اس کے کہ خواجہ آصف ، عابد شیر علی، طلال چوہدری، دانیا عزیز اور پرویز رشیدیوں جیسے چرب زبانوں آپ کی تعریفیں کر رہے ہیں مگر عوام کی اکثریت آپ کو سیاسی 420 اور فراڈیا سمجھتی ہے۔ جب تک آپ اپنے آب کو عوام کی عدالت میں پیش نہیں کریں گے آپ کے بارے میں عوام میں یہ تصور ہمیشہ رہے گا۔

چند روز قبل آپ کی باورچیکابینہ کے اہم رکن جن کے پاس ریاست کا خزانہ ہے ایک بیان نظروں سے گزرا، اگر دالیں مہنگی ہیں تو عوام مرغ کھائیں ، 1789ء کو فرانس کی ملکہ نے عوام سے کہا تھا کہ ڈبل روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ پھر جو ہوا تاریخ کا حصہ بن گیا فرانس میں انقلاب برپا ہوا اس انقلاب میں چوک چوراہوں پر ہر اس شخص کو پھندے پر لٹکایا جاتا جن کے ہاتھ نرم اور قمیض کے کالر صاف تھے۔ اسحاق ڈار کو پتا ہے کہ پاکستانی عوام بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ۔ یہاں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات غریبوں اور مفلسوں کی منافقت اور بے غیرتی ہے، جو ظلم کو برداشت کر لیں گے مگر بغاوت نہیں کریں گے جو کاخ امراء کے درودیوار ہلانے کی بجائے امراء کی جی حضوریاں کر رہے ہیں۔ تف ہے ان دہکانوں پر جو جاگیرداروں کے بھڑولے بھرنے کیلئے پسینہ بھاتے ہیں اور ان کی عورتیں جاگیرداروں کی ہوس کی آگے بجھانے کیلئے خون بہاتی ہیں۔ تف ہے ان مزدوروں پر جو دو وقت کی روٹی کیلئے سرمایہ دار کی ملوں کا پہیہ گھماتے ہیں اور ان کی عورتیں غربت و افلاس کے راستے پر چلتے ہوئے ہوس پرستوں کے بازار کی ز ینت بن جاتی ہیں۔ہمیں اشد ضرورت ہے جہالت کے خاتمے کیلئے ۔ وہی جہالت جسے آپ نے جان بوجھ کر اس لئے رکھا ہوا ہے کہ اگر عوام تعلیم یافتہ ہو گئی تو ان کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچ جائیں گے۔

حکومت اور اپوزیشن ’’پانا میاں‘‘کھیل رہی ہے۔ ملک میں قتل و غارت گری عروج پر پہنچ چکی ہے ، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کا دن دیہاڑے اغواء کے بعد معروف قوال امجد صابری کا قتل بھی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے ۔ امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے ۔جب بھی کوئی اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے تو مذمتی بیانات کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو تین دن کے بعد اللہ اللہ خیر صلا پر ختم ہو جاتا ہے۔ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی ترجیح اول امن و امان یا شہریوں کے جان و مال تحفظ نہیں بلکہ اپنے لوٹ شدہ سرمایہ کو تحفظ دینا ہے۔ قتیل شفائی نے کیا خوب کہا تھا کہ منافق ہے وہ شخص جو ظلم تو سہتا ہے مگر بغاوت نہیں کرتا ۔ جو قوم اپنی حالت کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی اس کی حالت کیونکر بدلے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ دنیا خطرناک جگہ ہے ان لوگوں کی وجہ سے نہیں جو بدکار ہیں بلکہ ان کی وجہ سے جو خاموش تماشائی ہیں۔ حکمران چاہے فوجی ہوں یا سیاسی ، اگر فتنہ برپا کر رہا ہے تو کیوں قبول کرتے ہو، نوچ پر پھپنک کیوں نہیں دیتے۔ کیوں خاموش ہو؟ یہ سب اسی خاموشی کا انجام ہے یہی ہمارا قصور ہے۔

یہ سوچنا کہ کون راہ بتائے ؟ کون ہمیں جگائے؟ ہمارا المیہ ہماری بے حسی ہے ، ہماری سوچیں مفلوج ہو چک ہیں ، آج کی بھوک تک محدود ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی ہے ، اپنی منجمد زندگی اور بے بسی کو جنجھوڑو حق کو پہچان سکتے ہو تو پہچانو ۔ بول سکتے ہو تو تولو یہ نہ سوچو کہ ہماری آواز میں طاقت کتنی ہے جو میرے کہنے کا کچھ اثر نہیں ہو گا جس محفل میں یبٹھو بہتری کی بات کرو یہیں سے تبدیلی شروع ہوتی ہے۔ اپنے اندر بھی اور باہر بھی دلوں کو زندہ کرو، ان کو جھنجوڑو ،غفلت کی نیند سے جگاؤ، اس خوف سے دب کر نہ بیٹھو کہ لوگ تم پر ہنسیں گے ، انگلیاں اٹھائیں گے اپنے ہی لہو کے شرار سے اس اندھیرے میں راہ تلاش کرو۔ اپنے سچ کو ڈھونڈو وہی شعلہ ہے وہی مشعل راہ۔ سب آوازیں مل جائیں تو کائنات لرز جاتی ہے پھر وہ خود کو تمہاری مرضی پر ڈھال لیتی ہے اب اٹھو دیر نہ کرو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے