بھانجے مجھے ناکام ہی سمجھو!!!

( ایک ماموں کا اپنے بھانجے کے نام فرضی خط)

عزیز از جاں بھانجے…! السلام علیکم…
امید ہے زندگی کی خوشیاں سمیٹ رہے ہو گے… ان شاء الله…
آج تمھاری یاد آئ تو سوچا خط لکھوں’ تمہارا حال احوال پوچھوں اور ساتھ میں تمھارے اس سوال کا جواب بھی دوں جو تم نے پوچھا تھا…
تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ: ماموں…!!! گاؤں میں آپ کا بڑا نام ہے… لیکن آج تک آپ نے کچھ بنایا نہیں…؟؟؟
تمھارے اس ایک جملے نے مجھے اندر’ باہر سے ہلا کر رکھ دیا تھا… مجھے دکھ تھا اور انسانی کمزوری کے سبب شاید کچھ ناکامی کا احساس بھی… اسی لئے میں نے تمھاری طرف دیکھتے دیکھتے شرمندگی کے سبب فورا اپنی نظریں دوسری طرف پھیر لی تھیں… یہ وہ لمحے تھے جب میں اور میری روح… اپنے حال سے ماضی کی طرف پرواز کر چکی تھی…
تم چھوٹے سے بچے تھے اور میں بھی صرف ایک لڑکا ہی تھا… سارے گھر والے’ رشتہ دار’ محلے والے اور سنگی یار… سارے کے سارے مجھے "بہت شریف” کہتے تھے… مجھے یاد ہے کبڈی’ کرکٹ یا فٹبال کھیلتے ہوئے اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آ جاتی کہ کسی واری’ رنز’ وکٹ یا گول کا تنازعہ پیدا ہو جاتا تو دونوں ٹیموں کے کھلاڑی میری طرف ہی دیکھ رہے ہوتے… اور اگرچہ میرے بیان کے سبب میری اپنی ٹیم کے ہار جانے کا خدشہ ہی کیوں نہ ہوتا تو بھی میں سچی گواہی دیتا یہاں تک کہ بعض اوقات بطور کپتان میرا بیان مجھے ہی شکست سے دوچار کر دیتا تھا… لیکن مجھے شکست قبول تھی’ جھوٹ نہیں… یاد ہے ناں…؟؟؟ تم تو میدان کے کنارے بیٹھ کر میرا’ میری ٹیم کا میچ دیکھ رہے ہوتے تھے ناں…؟؟؟

[pullquote]تمہیں تو یاد ہو ہی گا…
[/pullquote]
تمہارا ماموں اپنے "گراں” کے ہائی سکول کا بہترین طالب علم ہوا کرتا تھا… اساتزہ اس سے محبت کرتے تھے… ساتھی طالب علموں کے لئے… انکی مدد کے لئے ہمہ تن تیار رہتا تھا… ہمیشہ اچھی پوزیشن لیتا تھا… تعلیمی سفر جاری تھا… ٹاٹ اسکول سے شروع ہوتا’ ملک کی بہترین یونیورسٹی میں داخلے کے لئے ١١ چنیدہ طالبعلموں میں سے ایک تمہارا ماموں بھی تھا… یہ تعلیمی سفر برطانیہ اور امریکا کے بہترین تعلیمی اداروں تک جا پہنچا تھا… تم بھی اپنے دوستوں کو فخر سے بتایا کرتے تھے کہ میں تمہارا ماموں ہوں… یاد ہے…؟؟؟

[pullquote]کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ…؟؟؟
[/pullquote]
میں نے کبھی اپنی عمر سے بڑے کسی بھی انسان کے لئے ادب کا مظاہرہ نہ کیا ہو؟ یا ان کے سامنے بد تمیزی کی ہو؟ ہم عمر ہی نہیں’ تمہارا ماموں تو اپنی عمر سے چھوٹوں کے لئے بھی ایک بھائی اور دوست کی حیثیت رکھتا تھا… آج جب میں ملک سے دور’ بہت دور… بہت عرصے سے پردیس میں آباد ہے دور آباد ہے… نئی نسل شاید اسے جانتی بھی نہ ہو لیکن آج بھی ذرا "گراں” کی گلیاں گھومو… ان گلیوں سے پوچھو اور ان گلیوں میں گھومنے والے میرے ہم عمر لوگوں’ بزرگوں سے بات کرو… کہ وہ تمھارے ماموں کے بارے میں کیا جانتے اور کیا کہتے ہیں…؟؟؟ اور پھر مجھے بتا دینا…

[pullquote]لیکن ذرا ٹھہرو… سانس لو…
[/pullquote]
تم نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ… تمہارا ماموں کچھ نہ بنا سکا… واقعی میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات سچ ہے…
جسے اپنے وطن سے محبت تھی… اس نے مواقع ملنے کے باوجود کسی "ترقی یافتہ” ملک کا پاسپورٹ نہ لیا… جس کی حلال آمدنی کے علاوہ صرف ایک دستخط پراس کا اکاؤنٹ پیسوں سے بھر سکتا تھا… لیکن وہ ایسے موقعوں پر قرآن کے چند نسخے مانگ لیتا تھا’ کسی ضرورتمند کی نوکری کا بندوبست کروا دیتا یا پھر کوئی اور حاجت پوری کروا دیتا تھا… جو چاہتا تو بینک سے "سودی قرضہ” لے کر بحریہ ٹاؤن میں بنگلہ خرید لیتا اور کوئی سپورٹس کار بھی رکھ لیتا لیکن وہ تو آج تک کمپنی کی فراہم کردہ گاڑی کے علاوھ اپنے لئے ڈھنگ کی گاڑی بھی نہیں خرید سکا کیونکہ وہ اپنی جمع پونجی لوگوں کو "سیٹل” کروانے کی کوشش میں لگا دیتا تھا اور بینک سے "لیز” یعنی سود پر بھی گاڑی نہیں لینا چاہتا… جو افورڈ کر سکنے کے باوجود کسی بڑے بنگلے میں نہیں بلکہ ایک درمیانے درجے کے فلیٹ میں رہتا ہے… بہت سے لوگ ان شخصیتوں کے ساتھ چند لمحے گزارنا اور پھر اس کا تذکرہ لوگوں کے سامنے کر کر کے فخر و غرور سے گردنیں اکڑاے پھرتے ہیں’ تمھارے ماموں نے ان کے ساتھ وقت گزارنے کے باوجود کبھی اپنی عزت نفس کو نیچے نہیں لگنے دیا اور نہ ہی ان سے کوئی فائدہ اٹھانے یا نام بنانے کی کوئی کوشش کی… سادہ ترین الفاظ میں: اس کا تو کوئی "ٹہکا” ہی نہیں… یا تمہارے الفاظ میں تمہارے ماموں نے کچھ بھی نہیں بنایا…

[pullquote]ہاں ایک بات ضرور ہے…
[/pullquote]
تمہارا ماموں… ایک پرسکون اور باعزت زندگی گزار رہا ہے… وہ اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے بھی کسی اور ہی دنیا کا باسی ہے… وہ اپنی زندگی سے خوش ہے اور مطمین ہے اور اپنا سفر مکمل کرنے والا ہے… گو کہ وہ صرف ایک "بنجارہ” ہے جس کا بظاہر کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے رازق و مالک کی دنیا میں اپنے دانے سمیٹتے چلتا رہتا ہے… اسکی دنیا اس کا من ہے اور وہ اپنی اسی دنیا کے گیت گاتا رہتا ہے… جس کے پاس کوئی لگژری گاڑی تو نہیں ہوتی پر اس کے روح ان دنیاؤں میں محو پرواز رہتی ہے جس کا بہت سے "کامیاب” لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے… تمہارا ماموں اپنے رب کے حضور بس ایک "کن” کا منتظر ہے… اس "کن” کے ساتھ ہی اس اس کا سفر تمام ہو جائے گا اور اسی سفر کے لئے زاد راہ سمیٹنے کی تگ و دو میں ہے…

[pullquote]میں نے اعتراف کر لیا ہے کہ…
[/pullquote]
میں ایک ناکام انسان ہوں… میں خواہ مخواہ ہی اندر’ باہر سے ھل گیا تھا… حالانکہ مجھے اپنے ملک پاکستان کے معاشرتی رویوں اور لوگوں کی سوچوں کو… جس میں تم پلے بڑھے ہو اور میں بھی… ذہن میں رکھنا چاہئے تھا… اس معاشرے کے افراد کے نزدیک کامیابی اور ناکامی کے جو معیار بن چکے ہیں’ ان کی خبر رکھنی چاہیے تھی… خیر! میری وجہ سے معاشرے میں اگر تمھاری یا کسی اور رشتہ دار کی سبکی ہوتی ہو تو براہ کرم مجھے معاف کر دینا…

[pullquote]اور آخری بات…
[/pullquote]
اپنی امی’ خالاؤں’ دوسرے ماموں’ باقی کے رشتہ داروں’ میرے سنگی یاروں سے ایک بات پوچھ لینا کہ وہ جو مجھے "بہت شریف” کہتے تھے… اس "بہت شریف” کے کیا معنی تھے…؟؟؟
اپنا خیال رکھنا…
والسلام
فقط تمہارا ماموں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے