برطانوی ریفرنڈم

سب سے اہم تبصرہ بلجیئم کے وزیراعظم چارلس مائیکل کا ہے یعنی "اپنی ترجیحات اور یورپ کے لئے ایک نئے مستقبل کا تعین کرنا ہو گا”. اور سب سے بیباک الفاظ نیدرلینڈز کے وزیراعظم مارک راٹ کے ہیں یعنی "آپ کو برطانیہ میں دکھائی دینے والا عوامی عدم اطمینان میرے اپنے سمیت دیگر ممالک میں بھی موجود ہے. یہ صورت حال مزید اصلاحات اور بہبود کے لئے متحرک ہونا مانگتی ہے”. برطانوی عوام کا فیصلہ کوئی اچانک یا غیریقینی بات نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کوئی انہونی ہے. مگر ذاتی طور پر میں 52 فیصد کے مقابلے میں 48 فیصد والے نتائج کی بجائے 70 فیصد کے مقابلے میں 30 فیصد والے نتائج کی توقع کر رہا تھا.

راقم نے رواں سال فروری اخیر میں انڈس براڈکاسٹ اینڈ کیمونیکیشن اردو کے ای میگزین پہ شائع ہونے والے ایک مضمون "میر کو میر ہی سے خطرہ ہے” میں یہ لکھا تھا کہ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج یورپی یونین کے خلاف آئیں گے تو بہت سے "لبرل” دوستوں نے میرا ٹھٹہ اڑایا تھا. آج میں ایک دعوی اور کرنا چاہتا ہوں کہ 2020ء تک یورپی یونین کا وجود باقی نہیں رہے گا یا محض تین چار ممالک تک محدود ہو گا.

یورپی یونین بنیادی طور پر سرمایہ داروں اور دولت کے پجاریوں کا اتحاد ہے. یہ غریبوں اور محنت کشوں کے استحصال کرنے والوں کا اتحاد ہے. برطانوی عوام نے یورپی یونین کے خلاف ووٹ دیکر دراصل معاشی مظالم کے خلاف ووٹ دیا ہے. یہ بےچینی کا اظہار ہے جو عوام کے اندر موجود ہے. یہ معاشی پالیسیوں اور معاشی حملوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہے. یہ ریفرنڈم ظالم سرمایہ داروں کے خلاف ہوا ہے. اس ریفرنڈم نے واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پہ یورپی اتحاد ایک یوٹوپیائی خیال ہے. یورپی یونین کی بنیاد مضبوط معاشی طاقتوں کی جانب سے کمزور معیشتوں کے استحصال پر ہے. کیا جرمنی یونان، پرتگال، سپین اور آئرلینڈ جیسے کمزور ممالک کا استحصال نہیں کر رہا؟

بحرانوں کے نئے بحران، سرمایہ دارانہ نظام گل سڑ کا بدبودار اور بدترین ہو چکا ہے. سرمایہ داری اور لبرل ازم کی موت کے بنیادی عوامل کا آغاز ہر سطح پہ جاری ہیں. ٹوری پارٹی اپنے اندرونی بحرانوں کا شکار ہے. یورپی یونین کے وجود کو خطرہ ہے اور پوری دنیا ایک عالمگیر بحران کے دھانے پہ پہنچ چکی ہے.

2008ء کے معاشی بحران کے بعد سرمایہ داروں کو نوازنے کیلیے عوام کو ذلیل کیا گیا. بینکوں کو بیل آؤٹ پیکیج دیئے گئے جبکہ عوامی فلاح بجٹ میں کٹوتیاں برپا کی گئیں. انجلینا مرکل نے اپنے پیغام میں کہا کہ "یورپی یونین کے باقی ممبران کو کوئی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور مل بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ یورپی یونین کا نظریہ ایک پراُمن یورپ کا نظریہ ہے”. لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہے. اِن حکمرانوں کو عوام اور محنت کشوں کے استحصال کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہیے. یہ لوگ آرام اور سکون سے اپنا وحشی استحصالی نظام جاری رکھنا چاہتے ہیں. نام نہاد امن اور نام نہاد اتحاد کے نام پر…!!!

برطانیہ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے مگر ہر پانچ میں ایک برطانوی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے. یہ ملک طبقاتی تضادات سے بھرپور ترقی یافتہ ملک ہے جہاں پچھلے پانچ سالوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے. آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈونی ڈورلنگ کے مطابق "برطانیہ میں لوگ ایک دوسرے سے مختلف سوچتے، بولتے اور رہتے ہیں اور مختلف طرزِ زندگی کے حامل ہیں کیونکہ یہاں معاشی ناہمواری پائی جاتی ہے. یہاں دو مختلف دنیائیں ہیں، ایک غریب محنت کشوں کی دنیا اور دوسری امیر سرمایہ داروں کی دنیا”.

میڈیکل سائنس کے ایک برطانوی معتبر جریدے "بی ایم جے” کے مطابق برطانیہ میں ریکٹس (بچوں میں ہڈیوں کی نامناسب بڑھوتری کی بیماری) اور غذائی قلت جیسے مسائل ابھر کر سامنے آرہے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں کو کھانے کے لیے جو کچھ میسر ہے وہ اکثر غیرمعیاری اور غیرصحتمند ہے.

برطانیہ میں بےگھر افراد کا معاملہ بھی شدید ہو چکا ہے. ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 280 لوگ بےگھر اور چھت کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں. یہ معاملہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ برطانوی حکومت کو Homelessness Act پاس کرنا پڑا. HMRC کی رپورٹ کے مطابق 5 فیصد برطانوی شہریوں کے پاس برطانیہ کی 45 فیصد دولت ہے. مالیاتی عدم تحفظ نے برطانوی عوام کی اکثریت کو سماجی بیگانگی اور ناامیدی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے. اِن حالات میں موجودہ ریفرنڈم کے نتائج کسی اور کیلیے "سرپرائز” ہو سکتے ہیں مگر ہم جیسے مارکس وادیوں کیلیے نہیں.

لیکن ریفرنڈم کے نتائج بحران اور بےاطمنانی کا اظہار ہیں. برطانیہ یورپی یونین میں رہے یا نہ رہے، عوام کے مسائل ویسے کے ویسے رہیں گے. اصل بیماری بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو برقرار ہے. کیمرون کے استعفے کے بعد بھی ریفرنڈم کی قیمت محنت کش طبقہ کو ادا کرنی ہو گی. روزگار، اجرت، پنشنوں اور عوامی خدمات کے بجٹ میں کٹوتیوں کے زریعے معاشی حملے جاری رہیں گے. سرمایہ دار مزید وحشت ناکی کا مظاہرہ کریں گے. یہ نئی اور خطرناک جنگوں کے آغاز کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوگا. تاریخ گواہ ہے کہ منتشر یورپ دنیا میں جنگوں کا سبب بنتا ہے.

محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ متحدہ سوشلسٹ یورپ کے لئے جدوجہد ہے. یہ ریفرنڈم چاہے اس کا نتیجہ موجودہ نتیجے کے برعکس بھی نکلتا، غریب عوام اور محنت کش طبقہ کیلیے کوئی بھی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتا. ایک مضبوط اور متحدہ سوشلسٹ جدوجہد ہی یورپی اور برطانوی عوام کے حالات کو بدل سکتی ہے. اور باقی دنیا کے عوام کیلیے بھی یہی واحد قابلِ عمل راستہ ہے. محنت کشوں اور غریبوں کی عالمگیر جڑت…!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے