سارنگ خان اور سارنگ خان گکھڑ

آریاؤں نے جنگل صاف کرنے شروع کر دیے ،گلہ بانی کو خیرآباد کہا اورشمالی ہندوستان میں کاشت کاری کا آغاز ہوا, آریہ لوہے کے ہتھیاروں سے لیس تھے جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے وسیع وعریض میدانوں کے سینے کو چیرا اوربیج بویا-اس سے قبل بھی اس علاقے میں ،جو کبھی وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ تھا ، کاشتکاری اتنے بڑے پیمانے نہیں ہوئی-بہتر زرعی آلات سے زائد زرعی پیداوار ہوئی جس سے آبادی بھی بڑھی ۔ آریاؤں نے ہندوستان میں نئے سماجی نظام کی بنیاد رکھی۔ زمین کی ذاتی ملکیت کا تصور دیا جو کہ اس پہلے زمین قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہوا کرتی تھی۔ مقامی باشندوں کو غلام بنا لیا گیا،جو "داس” کہلاتے ۔ بعد میں صدیوں سے چلے آرہے اس نظام میں، دہقان آبادی کا بڑا حصہ ہوتےتھے یہی دہقان ضرورت پڑھنے پر شاہی فوج کا حصہ ہوتے- بغاوتوں اور جنگ و جدل میں سب سے زیادہ یہی لوگ متاثر ہو تے ۔

فیروز شاہ تغلق کے انتقال کے بعد جب انتشار بڑھ گیا تو سارنگ خان نے 1394 میں دیپال پور پر قبضہ کرلیا ، اور بعد میں ملتان کو بھی اپنے زیر تسلط کیا۔ امیر تیمور کے حملے کے بعد سارنگ خان کو ملتان چھوڑنا پڑا لیکن سر ہند تک کے علاقے پر اب بھی اس کا قبضہ تھا- سارنگ خان کا تزکرہ اعتزاز احسن کی کتاب Indus Saga” سندھ ساگر ” میں ملتا ہے ۔جو سرہند میں کسانوں کی ایک تحریک کا روح رواں تھا۔یہ تحریک 1420 میں زور پکڑ گئی ۔ سارںگ خان نے خضر خان کو لگان دینے سے انکار کر دیا،اور تمام کسان سارنگ خان کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے – شاہی فوج نے کسان تحریک کو کچلنے کے لئے چڑھائی کی ،سارنگ خان کو قید کر لیا گیا اور بعد میں اسیری کے دوران سارنگ خان کی موت ہو ئی۔

1540 میں قنوج اور چونسہ کی جنگوں میں شکست کے بعد ہمایوں کوہندوستان سے بھاگ کر ایران پناہ لینا پڑی۔ شیر شاہ سوری نے اقتدار مضبوط کرنے کے لئے شاہراہوں ،سراؤں اور مواصلات کا نظام بہتر کیا ہی لیکن شمال مغربی علاقوں سے بیرونی حملہ آوروں کا راستہ روکنے کے لئے قلعہ روہتاس کی تعمیر بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ یہ علاقہ پوٹھوہار کا تھا جہاں کا حاکم ،سارنگ خان گکھڑ تھا – گکھڑوں نے قلعہ روہتاس کی تعمیر میں رخنہ ڈالا اور اپنے علاقے سے ایک پتھر بھی اٹھانے نہ دیا- شیر شاہ سوری کو شدید مزاحمت کا سامنا ہوا –

شیر شاہ سوری کی موت کے بعد اسلام شاہ سوری نے گکھڑوں سے جنگ کی جس میں سارنگ خان گکھڑنے اپنے سولہ بیٹوں جان قربان کر کے ، ہمت و بہادری کا استعارہ بنا ۔ ہندوستان کی تاریخ کے دونوں ” سارنگوں ” میں جوبات مشتر ک ہے وہ ان کا بیرونی حملہ آوروں کے آگے سینہ سپر ہو جانا ہے ۔ تاریخ کے گمشدہ اوراق میں سارنگ خان گکھڑ کا نام زندہ رہے گا جو سوری کی جرنیلی سڑک کی راہ میں دیوار تھا اور ہی شاید ایسے کتنے ہوئے ہوں گے جو سوری کے آگے ڈٹے رہے ، پر تاریخ میں ان کا ذکر کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے – شاید ہم شیر شاہ سوری کےصرف عظیم منصوبوں کو ہی یاد رکھے ہوئے ہیں-
اور ایک سارنگ خان جو کسان تحریک کا روح رواں تھا – وہ کسان ،جو غالباََ اوکاڑا کے مزارعین جیسے ہی ہوئے ہوں گے ۔لیکن درباری مؤرخین انہیں چور ،بدمعاش ،غدار، لٹیرا لکھتے اس زمانے میں میڈیا کہاں تھا ورنہ اور کیا کچھ ان کے خلاف لکھتے؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے