حکمرانوں کی بیماریوں سے جنم لیتی قیاس آرائیاں

ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو جائے یا حکمران بیمار پڑ جائیں تو افواہوں کا بازار سرگرم ہو جاتا ہے جس کے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔عوام کے اندر ایک بے چینی جیسی صورت حال پیداہو جاتی ہے کہ شاید اب کچھ ہونے والا ہے۔ہماری اس دھرتی میں جب افواہوں کا بازار سرگرم ہو جائے تو لوگوں کے دلوں میں قیاس آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ اب بس حکومت کے دن پورے ہونے لگے ہیں۔ہمارے ملک کی سیاست ہی ایسی ہے کہ گلی ، محلے، چوراہوں اور ہوٹلوں میں بیٹھے لوگ اپنے طور پریہ اندازہ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ان میں سے کچھ لوگ اس صورتحال کی طرف دیکھتے ہوئے موسمی پرندوں کی طرح اپنے گھونسلے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں سازشوں اور افواہوں کا بازار اس وقت شروع ہوا جب پانامہ لیکس منظر عام پر آئیں۔ پاناما لیکس وزیراعظم کے لئے پریشانی اور خفت کا باعث بنی۔ حالانکہ میاں صاحب نے قوم سے خطاب کر کے اپنی پوزیشن واضع ضرور کی لیکن اپوزیشن کا اعتماد بحال نہ کر سکے۔ ان پر سیاسی دباؤ بڑھ ہی رہا تھا کہ ایسی خبریں آنی شروع ہوئیں کہ میاں صاحب کی طبیعت ناساز ہے۔ جبکہ وجہ پاناما لیکس کو قرار دیا گیا۔قیاس آرایوں کو اس وقت تقویت ملی جب یہ خبر ملی کہ وزیراعظم اپنے چیک اپ کے لیے لندن جائیں گے۔ اس پر کسی نے کہا کہ وہ آصف زرداری کے دربار میں حاضری دیں گے تو کسی نے کہا کہ اس کا تعلق پاناما لیکس سے ہے۔

مائنس ون فارمولے کی بات بھی زدعام ہے ا سی سلسلہ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید سب سے آگے رہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اب ان ہاؤس تبدیلی کے لئے بیگم کلثوم نواز مضبوط امیدوار ہیں اور کچھ نے تو متبادل وزیراعظم کے نام پیش کیے۔اب وزیر اعظم کی ہارٹ سرجری ہو چکی ہے اور اب ایک ماہ ہونے کو ہے کہ الزام تراشیوں کا سلسلہ اسی زور و شو رسے جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔اب لوگوں کے دلوں میں وزیر اعظم کی ہارٹ سرجری سے متعلق مختلف چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔

علامہ طاہر القادری نے تو یہاں تک کہ دیا کہ یہ کیسی کرشماتی سرجری تھی جسکے بعدوزیراعظم نے برگر کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوسری برسی کے بعد اب یہ بھی زبان زد عام ہے کہ شاید میاں صاحب پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بھی دباؤ ہے۔اور دوسری طرف انہی خدشات کی ایک جھلک ہمیں مسلم لیگ ن کے اندر ایک فارورڈ بلاک کی صورت میں دکھائی دی۔ پہلے حکومتی باغی ارکان جن کی تعداد تقریباََ 86 کے قریب ہے جن میں 10 لیگی خواتین بھی شامل ہیں پہلے اسحاق ڈار کی قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے بائیکاٹ کے طور پر سامنے آئی اور بعد میں گزشتہ دنوں اسحاق ڈار کی طرف افطار ڈنر پر پوری اسمبلی اور تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے تمام تر کوششوں کے باوجود 188 میں سے صرف 63 ارکان نے افطار پارٹی شرکت کی یہ صورتحال حکومت کے لئے انتہائی مایوس کُن رہی جس نے حکومتی صفوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے جبکہ پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف ،سمیت اپوزیشن کی جماعتوں نے ڈنر کا بائیکاٹ کیا البتہ جے یو آئی، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم کے ارکان نے شرکت کی۔

پاکستانی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہوا بلکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں حکمران جب بھی علیل ہوئے تو طرح طرح کی کہانیوں نے جنم لیا۔ اس سلسلے کا آغاز بانی پاکستان سے ہوا۔وہ جون 1948 میں زیارت تشریف لے گئے جہاں ڈاکٹرز ان کی صحت یابی کے لیے سرگرم رہے۔محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کی تیمارداری کے لئے ہمہ وقت موجود رہیں ۔ان دنوں ایک روز اچانک وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مرکزی سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کو ساتھ لیا اور بغیر پیشگی اطلاع قائد اعظم کی خیریت دریافت کرنے زیارت پہنچے ۔وزیر اعظم نے معالج سے بیماری کی تشخیص سے متعلق جاننا چاہا تو کرنل الہی بخش نے انکار کردیا چودھری محمد علی نے کہا کہ وُہ قائد اعظم کی اجازت کے بغیر اُنکے مرض کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔لیاقت علی خان کے دورے میں ایک اہم بات یہ ہوئی کہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو وزیر اعظم کی آمد کی اطلاع دی تو وُہ بولے ” تم جانتی ہو کہ وُہ یہاں کیوں آئے ہیں ” وُہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میری علالت کتنی شدید ہے میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں ۔محترمہ فاطمہ جناح نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے عالم میں جب انہیں بھائی کی بیماری نے پریشان کیا ہوا تھا تو دوسری طرف کھانے کی میز پر وزیر اعظم خوشگوار موڈ میں خوش گپیاں کرتے رہے ۔

گورنر جنرل غلام محمد جب بستر علالت پر تھے تو معالج نے پیغام بھیجوایا کہ اب وُہ کچھ لمحہ کے مہمان ہیں اس لئے جس نے ملنا ہو مل لے تو ایسے میں وزیراعظم ،آرمی چیف اُنکی عیادت کے لئے آئے پہلے تو وُہ بے ہوشی کے عالم میں تھے لیکن بعد میں ہوش میں آگئے ۔فالج کے حملہ کے بعد وُہ پوری طرح توانا نہیں تھے تو اسی طرح اُنکی سبکدوشی بھی مسئلہ بن گئی تھی۔

اس طرح ایوب خان کی بیماری نے سب سے زیادہ افواہوں اور وسوسوں نے جنم لیا جب تک موت کے منہ سے واپس نہ آئے یحیی خان اقتدار پر قبضے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔یحیی خان کو لگتا تھا کہ ایوب خان نہیں بچیں گے مگر اُنکی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب فیلڈ مارشل کی طبیعت رفتہ رفتہ سنبھلنے لگی ۔یحیی ٰ خان کا سازشی ٹولہ اقتدار کے حصول کے لیے جس خاموشی سے داخل ہوا اُسی طرح چُپکے سے نکل گیا ۔

2011ء میں آصف علی زرداری میموگیٹ اسیکنڈل کی وجہ سے شدید دباؤ میں آکر بیرون ملک گئے تو کسی نے کہا کہ انہیں فالج ہو گیا ہے تو کسی نے کچھ ۔لیکن اس وقت امریکی فارن پالیسی جریدے نے دعوی کیاکہ زرداری صاحب میمو اسیکنڈل کی وجہ سے شدید دباؤ میں اور طبی بنیادوں پر صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ بعض سیاستدانون ،صحافیوں،دانشوروں نے بڑے یقین سے کہا کہ میمو اسیکنڈل کے بعد اب آصف علی زرداری وطن نہیں لوٹیں گے۔

اب گزشتہ ماہ پانامہ لیکس کے آنے کے بعد ایک بات یہ بھی عیاں ہو رہی ہے کہ دونوں بھائیوں میں اختلافات کی خبریں زورپکڑ رہی ہیں ۔اور یہ بھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ شریف خاندان میں سیاسی وراثت کا تنازع بھی جنم لے سکتا ہے۔لیکن ایک بات قابل غور یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو جس طرح پرویز مشرف،آصف علی زرداری اور اب نواز شریف بھگت رہے ہیں اس اعتبار سے قائد اعظم ،غلام محمد ، ایوب خان ،یحییٰ خان خوش قسمت تھے کہ وُہ زمانہ الیکٹرانک میڈیا اور اینکروں کا نہ تھا وگرنہ اُنکی بیماری کی خبریں خوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کی جاتی ۔

آصف علی زرداری اور نواز شریف میں ایک بات مشترک رہی دونوں سیاسی بحران کے دنوں میں علاج کرانے بیرون مُلک گئے۔نواز شریف کے باہر جانے کی ٹائمنگ ایسی ہی تھی کہ اس پر سوالات ہی اُٹھنے تھے اوردوسرا جس ملک میں لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں وہاں کے حکمرانوں کا باہر جاکر علاج کرانا غریب عوام پر تماچے کے مترادف ہے ۔

کاش ہمارے حکمران اس مُلک میں صحت کے لئے ایک ایسا ہسپتال ہی بنا دیں جہاں اُوروں کا تو نہیں کم از کم انکا اپنا علاج ہی تسلی بخش ہو جاتا یا پھر ملائیشیاء کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ہی سبق سیکھ لیتے جن کو 1989 ء میں ہارٹ اٹیک ہوا اُس وقت صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے پیش نظر ڈاکٹروں نے بیروں مُلک جانے کا مشورہ دیا لیکن مہاتیر محمد نے انکار کرتے ہوئے کہا میں بھی اتنی ہی سہولتیں حاصل کرونگا جتنا کہ ملائیشیا ء کے عام لوگوں کو میسر ہیں میرا باہر علاج کرانا لوگوں کے ساتھ ظلم ہوگا۔ مہاتیر محمد کا علاج پھر اپنے ہی مُلک میں ہوا اگر مہاتیر سے سبق نہیں سیکھنا تو ہمارے حکمران عبدالستار ایدھی سے ہی سبق سیکھ لیں جنہوں نے ہمیشہ علالت کے باوجود اپنے ہی مُلک میں علاج کرانے کو تر جیح دی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے