جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا

ایک ظلم کی بازگشت رکتی نہیں کہ دوسری خبر سینا چیر کے رکھ دیتی ہے ظلم کا سیل رواں ہے کہ بہتا ہی چلا جاتاہے آج اس ملک کا ایک اور بیٹا اس دنیاں سے رخصت کر دیا گیا۔

امجد صابری شہید کودن دھاڑے خون میں نہلادیا گیا اس ماہ مقدس میں کہ جس میں ہر مسلمان کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی خشنودی کو کسی بھی حال میں حاصل کرے وہ تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی ایسا فعل سر انجام دے کہ جس سے رب کریم کی نارضگی کا احتمال ہو مگر یہ بھی تو سچ ہے ہر دور میںیذید یت پلتی ہے اور تا قیامت رہے گی۔

یہ اسی یذیدیت ہی کا وار تھا جس نے ثناخوان رسول کو خون میں نہلا دیا ۔

پاکستان کا یہ بیٹا آج سپرد خاک کر دیا گیا امجد شہید صابری کے آخری سفر پر رخصت کر تے وقت چاہنے والوں کا ایسا جم غفیر امڈ آیا تھا کہ کراچی کی تاریخ میں شائد ہی اتنا بڑا ہجوم کسی جنازے میں دیکھنے کو ملا ہو ۔
لیاقت آباد سے کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان تک انسانوں کا ایک سیلاب تھا جو اپنے اس بیٹے بھائی اور دوست کو رخصت کرنے پہنچا تھا۔

قارئین ہمارا ایمان ہے کہ ہر ذی شہ کو ایک دن اس دنیاں سے جانا ہے اور یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کا آخری وقت کیسا ہو گا ؟ جس ایمان کی رسی کو وہ تھامے بیٹھا ہے دم رخصت وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ تو نہ جاے گی؟ یہ کسی کو علم نہیں۔تو بس اصل کامرانی یہ ہے کہ بندے کا خاتمہ بالا یمان ہو اور اس کے جانے کے بعد دنیاں میں لوگ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔

باوجود اس بات کہ اس خلا کوکبھی بھی پر نہیں کیا جا سکے گا جو صابری شہید کے جانے کے بعد پیدا ہوا ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو راے نہیں کہ آب قوالی کا صابری عہد ختم ہو گیا ہے مگر بطور مسلمان انسباط کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امجد صابری شہیدکو روزے کی حالت میں اس دنیاں سے رخصت ہونے کا موقعہ ملا کہ جس ماہ مقدس میں جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے ،اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا اور اس اجر کی عظمت کو تو صرف رب تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی بہتر جانتی ہے ،یہ کیا کم کوش نصیبی ہے کہ جب ان کو اپنے رب کے سامنے پیش کیا گیا ہو گا تو وہ روزے کی حالت میں ہوں گیں سبحان اللہ۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جان کی کوئی بات نہیں

اب شہیدتو آپنے آخری سفر پر روانہ ہو گیا مگر دوسری جانب ملک عزیز میں بے حس حکمران طبقے کا وہ ہی ریاستی گھسے پٹے جملے اور بیانات کی باز گشت سنائی دیتی رہی گی کہ واقعہ کا نوٹس لے لیا گیا ، وزیر اعظم نے واقعہ کی پر زور مذمت کرتے ہوے انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جو جلد سے جلد شوائد اکھٹے کر کے اصلی مجرمان کا چہرہ بے نکاب کرے گی ۔ مجرمان کے خاکے جاری کر دیے گے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

رواں سال کراچی شہر میں ہونے والے ہائی پرفائل کیسزکی تفتیش میں ماسواے ملزموں کے خاکوں کی تیاری کے کو ئی اہم پیش رفت نہیں ہو سکی، تین مقدمات سی ٹی ڈی کے سپرد کیے گے ان ہائی پرفائل وارداتوں میں امجد شہید صابری کا کیس بھی اب شامل ہو گیا ہے ۔

امجد صابری کا قتل ہو یا پھر چیف جسٹس سندہ ہائیکورٹ کے بیٹے کا اغوا یا پھر اسٹیل مل چینی انجنیئرز کی گاڑی پر حملہ ، یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی یہ لہنت خالی خاکوں سے نہیں جاہے گی بلکہ حکومت وقت اور قانون نافظ کرنے والے ادارں کو سنجیدگی سے ایک مضبوط سٹریٹیجی بنانا ہو گی ورنہ حالت ہمارے سامنے ہے کہ ایک بار پھر دہشت گردوں نے چند دن میں شہر کراچی کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے آپریشن کے بعد کیا ہو گا ؟ ماضی میں نصیراللہ بابر نے ایک بڑا آپریشن لانچ کیا تھا اگر آپریشن ہی علاج ہوتا تو وہ ہی کافی تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور آج کراچی آپریشن کو تین سال مکمل ہونے کو ہیں نتیجہ سامنے ہے کہ دہشت گرد جب جس وقت اور جہاں چاہتے ہیں بڑی آسانی کے ساتھ کاروائی کرکے ہمارے آپریشن اور کرتا دھرتا اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کی حالات کس سمت جا رہے ہیں اور شہر کی بربادی میں کون اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔
حکومتیں تو پھر زیادہ وسائل کی مالک ہوتی ہیں ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہو نا چاہیے ورنہ عوام کے بدن سے خون کشید کر کے حاصل کیے جانے والے اربوں کھربوں ان سیکیورٹی اداروں پر جو خرچ کیے جاتے ہے آخر وہ کس دن کے لیے ؟

مگر ہمارے حکمران اور حفاظتی ادارے سنجیدہ نہیں ہیں ان کے اپنی آل خیریت سے ہے عوام جاے بھاڑ میں ۔
ظالم حکمرانوں نے تو طبعی موت کو بھی اس ملک کی عوام کے لیے ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے ۔

نہ جانے ظلم اور بربریت کا شکار لوگوں کی اموات کو یہ ظالم حکمران شہادتوں کی مقدس پیکنگ میں چھپا کر انسانی خون کو ارزاں کب تک بناے رکھیں گیں ؟ شاعر نے کیا خوب کہا تھا!
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیخ پے لے کٹ جائے گی
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پے سنگ اٹھاو گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے تو ڈر جاو گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے