انسان کی شخصیت میں دوست کا کردار

انسان کی شخصیت اور اس کے دنیوی و اخروی امور میں دوست کا بڑا کردار ہوتا ہے – وہ اس کی زندگی کے مختلف پہلووں پر منفی یا مثبت اثر ڈالتا ہے – یہ بات معروف ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے – یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم ص) نے ہر انسان کی شخصیت کا ملاک ومعیار اس کے دوست کی شخصیت کو قرار دیا ہے – فرمایا” المرء علی دین خلیلہ وقرینہ ” ہر شخص اپنے دوست وہمنشین کے دین پر ہوتا ہے – روز قیامت جن چیزوں کے بارے میں انسان کف افسوس ملتا ہے – حسرت کرتا ہے , ان میں سے ایک بدکردار دوست کی دوستی ہے – اچها دوست انسان کو کامیابی سعادت اور کمالات سے متصف کرتا ہے – بدکردار اور برا دوست انسان کے لئے دائمی عذاب دارین کا باعث بن جاتا ہے – آج کے ہمارے معاشرے میں سب سے آسان اور ارزان رشتہ دوستی ہے – رشتہ دوستی برقرار کرنے کے لئے صرف علیک سلیک اور ایک دو دن ساتھ اٹهنا , بیٹھنا , کھانا پینا یا کلاس وبازار میں ساتهہ رہنا کافی ہے – بلکہ آج کل تو ایک مسیچ سینڈ کرنا , ایک تصویر بیجهنا یا ایک ہلو کرنا بھی دوستی کرنے کے لئے کافی ہے- اس بے بنیاد خود ساختہ معیار کے مطابق چھوٹے بڑے, جوان مرد وزن جلد ہی رشتہ دوستی جوڑدیتے ہیں – ایک دوسرے کی طرف آنکھیں بند کرکے دوستی کی برقراری کے لئے هاتهہ بڑھا دیتے ہیں- یہ غیر معیاری دوستی انسان کے لئے نہ صرف مفید نہیں بلکہ یہ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے – اس کی شدت انسان کو بسا اوقات دیوانہ بنادیتی ہے – ایسی دوستی کی آڑھ میں جوان خود کو فنا اور نابودی کے کنویں میں پھینک دیتا ہے – جوانوں کی اکثریت اس بے بنیاد دوستی کے نام پر قتل ہوچکی ہے – لاتعداد افراد زندان اورخودسوزی کی نزر ہوچکے ہیں- بہت سارے جوان جوانی کے عین بہار میں سوکهہ کر موت کی آغوش میں سوچکے ہیں – بے بنیاد دوستی نے بے شمار زہین , قابل طلباء کو پاکیزہ بلند اہداف سے ہٹا چکی ہے – ان کو غفلت کی نیند میں سلاچکی ہے- دین مقدس اسلام نے دوستی کرنے سے , دوست بنانے سے ہرگز منع نہیں کیا ہے – اور آنکھیں بند کرکے ہر کس وناکس سے رشتہ دوستی استوار کرنے کی اجازت بھی نہیں دی ہے – بلکہ اسلام نے دوستی کے لئے کچهہ حدود, قیود , معیار اور شرائط متعین کئے ہیں – جن کی پاسداری کرتے ہوئے اسلام نے دوستی کرنے کی تلقین اور تاکید کی ہے -اگر ہم اسلامی تعلیمات , معیارات , شرائط اور راہنمائی کے مطابق دوست کا انتخاب کریں – تو نہ صرف ہماری دنیوی زندگی شیرین , لزت بخش ہوگی بلکہ ہماری ابدی ولازوال زندگی بھی سنور جائے گی – دوست کی اہمیت کو اجاگر کرتے علی ع ابن ابی طالب فرماتے ہیں "لوگوں میں سے عاجز انسان وہ ہے جو دوست بنانے سے عاجز ہو اور اس سے بھی زیادہ عاجزتر وہ ہے جو اپنے رہے سہے دوستوں کو بھی کھو دے -انسان کا کمال اور ہنر یہ ہے کہ اپنے اخلاق و کردار کی قوت سے کسی کو اپنا ہمدم بنالے –

دوستی و محبت کسبی قرابت ہے اور دوست نہ رکھنے یا دوست کو کھو دینے کو معنوی غربت شمار کرتے ہوئے علی( ع) فرماتے ہیں ,دوستوں کو کہو دینا غریب الوطنی ہے – نیز ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں – دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر حفاظت نہ کرے ۔ ١ ۔ مصیبت کے موقع پر ٢ ۔ اس کے پس پشت ٣ ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے پیٹھ پیچھے اس کی آبرو کی حفاظت کرے ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کو یاد کرے اور اس کے لئے استغفار کرنے کے ذریعے اس کے حق میں نیکی کرے ۔ ہر ایک پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، ہر ایک کو مورد اعتماد نہیں سمجھنا چاہئے ۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں پرکھے بغیر ہر ایک پر بھروسہ کر لینا عجز و کمزوری ہے ۔دوستی کے متعلق ایک حدیث میں حضرت امام موسی کاظم ںفرماتے ہیں ” لاٰتَذہَبِ الحِشَمۃََ بَینَکَ وَبَینَ اَخِیکَ وَابقِ مِنہَا فَاِنَّ ذَہَابَہٰا ذَہٰابُ الحَیٰاءِ” اپنے اور اپنے دوست کے درمیان شرم و حیا کا پردہ ختم نہ کرنا کیونکہ اس پردے کے اٹھ جانے سے حیا کا خاتمہ ہوجاتا ہے یعنی ان کے درمیان ایک حدِ فاصل قائم ر ہے وہ ایک دوسرے کے تمام رازوں سے واقف نہ ہوں اور یہی انداز مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں حضرت امام صادق ع فرماتے ہیں "اِن اَرَدتَ اَن یَصفُوَلَکَ وُدَّ اَخِیکَ فَلاٰ تُمٰازِحَنَّہ”ُ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے بھائی کے ساتھ تمہاری دوستی خالص ہو تو اس سے ہنسی مذاق نہ کرنا ۔یہاں مذاق سے مراد گھٹیا اور غیر مہذب مذاق ہیں۔ "وَلاٰتُمٰارِیَنَّہُ” اس کے ساتھ جھگڑا نہ کرنا ۔مراد یہ ہے کہ ایسی بحث نہ کرنا جس میں بدکلامی ہو جو دوستی کو خراب کر دیتی ہے۔ "وَلاٰ تُبٰاہِیَنَّہُ” اور اس کے سامنے مباہات نہ کرنا۔ یعنی اسے اپنے رتبے و مقام مال ودولت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کرنا اور اپنے اس عمل کے ذریعے اس کی شخصیت کو نیچا مت دکھانا۔ "وَلاٰتُشٰارَنَّہ”ُ اور اسے نقصان نہ پہنچانا۔یعنی اس کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا جس سے فتنہ و فساد سر ابھارے یاایسا عمل نہ کرنا جس سے اس کے اور تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہو ۔

حضرت امام علی نقی ع فرماتے ہیں "اَلمِرَاءُ یُفسِدُ الصَّدَاقۃََ القَدِیمۃََ وَیُحلِّلُ العِقدۃََ الوَثِیقۃََ وَاَقَلُّ مٰا فِیہِ اَن تَکُونَ فِیہِ المُغٰالبۃََ "جدال پرانی دوستیوں کو خراب کر دیتا ہے مضبوط رشتوں کو توڑ دیتا ہے اور اس میں کم از کم یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کو زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ” وَالمُغٰالبۃُ اُسُّ اَسبَابِ القطعیۃَِ”اور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لۓ کوشش ہر برائ کی جڑ ہے۔ کیونکہ مغلوب شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ غالب کی نظر میں حقیر ہو چکا ہے جبکہ غالب رہنے والا خود کو مغلوب پر برتر محسوس کرتا ہے۔ یہ احساسات دوستانہ تعلقات میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں اور دوستی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔حضرت علی ع نے ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ اگر چغل خور لوگ ہمارے بارے میں ہمارے دوستوں کی کہی ہوئی ناروا باتیں ہمیں آ کر بتائں تو ہمیں ان کی بتائ ہوئی باتوں کو قبول نہیں کرنا چاہۓ "مَن اَطٰاعَ الوٰاشِی ضَیَّعَ الصَّدِیقَ” جوبھی چغلخور کی بات مانتا ہے وہ اپنے دوست کوضائع کر دیتا ہے ۔حضرت علی ع نے اپنی وصیت میں محمد بن حنفیہ سے فرمایا "اِیّٰاکَ وَالعُجبَ” خود پسندی سے پرہیز کرنا۔یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اپنے آپ پر ناز کرنے لگو اور اپنی شخصیت کو بزرگ و برتر سمجھنے لگو۔” وَسُوءُ الخُلقِ” بد اخلاقی سے پرہیز کرنا ۔ایسا نہ ہو کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آؤ – بد کلامی کرو اور سخت رویہ اختیار کرو۔” وَقِلَُّۃ الصَّبرِ” کم حوصلگی اوربے صبری سے پرہیز کرنا۔ یعنی کہیں ایسانہ ہو کہ تم دوسروں کی بد سلوکی اور ان کی اذیت وآزار کوبرداشت نہ کرو اور خبردارکہیں ایسا نہ ہو کہ اگر کوئی تمہیں اذیت پہنچاۓ تمہارے ساتھ بد سلوکی کرے اور تم ایک مدت تک حقیقت واضح ہونے کا انتظار نہ کرو۔” فَاِنَّہُ لاٰیَستَقِیمُ لَکَ عَلَی ہِذِہِ الخِصٰالِ الثَّلاٰثِ صَاحب”ٌ اس لۓ کہ ان تین صفات کے ہوتے ہوۓ کوئی تمہاری دوستی پر باقی نہیں رہے گاکیونکہ اگر تم اپنے دوستوں کے سامنے اپنی برتری اور فوقیت جتاو گے اور یہ کہو گے کہ میں تم سے برتر ہوں اورتم پست ہو یا ان کے ساتھ بد سلوکی کرو گے یا تعلقات کے دوران پیش آنے والی کمزوریوں کو برداشت نہ کرو گے تو پھر دوستی اور رفاقت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی –

امام صادق (ع) نے فرمایا : دوستی کے کچهہ حدود ہیں پس جس میں وہ حدود وہ معیار و صفات نہ پائے جاتے ہوں اسے دوست نہ سمجھو وہ صفات ومعیار یہ ہیں –
اول – تمہارے بارے میں اس کا ظاہر وباطن ایک ہو
دوم – وہ تمہاری زینت کو اپنی زینت اور تمہاری برائی کو اپنی برائی سمجھتا ہو
سوم- مال دنیا اور اس کی آرائش اسے تمہارے بارے میں منقلب نہ کرے
چہارم – جو کچهہ اس کے اختیار میں ہے وہ اس سے تمہیں محروم نہ کرے
پنجم – وہ تمہیں حوادث کے حوالے نہ کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے