اردگان اور ہم

بندوقوں کا رخ اب کی بار رجب طیب اردگان کی جانب ھے ۔۔۔ کیا لبرلز اور کیا ہی ان سے متاثرہ ملاز۔۔۔۔ سبھی ڈھولکیاں لیکر فیس بک پہ اتر آئے ہیں اور ” دیکھا ہم پہلے ہی نہ کہتے تھے ” جیسے طعنوں سے اپنی اپنی دیواریں سجا رکھی ہیں ۔۔۔۔۔

پاکستانی جنتا کو باور کرایا جارھا ھے کہ جیسے ترک صدر نے پہلی بار اسرائیل سے تعلقات قائم کئیے ۔۔۔۔ ماضی کسی کویاد نہیں کہ یہ ترک ریاست تھی جس نے اسرائیل کو ادرگان سے بہت پہلے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اعلی سفارتی و معاشی روابط بھی رکھے ۔۔۔۔۔

ترکی ایک سیکیولر ریاست ھے ، جس میں اچھی حکمت عملی اور کارکردگی کی بیناد پہ ایک مسلمان اقتدار تک پہنچ گیا ، اردگان نے اپنے پیش رو اور رفاہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے نجم الدین اربکان کی جماعت کو ساتھیوں سمیت چھوڑا تھا ، اسکی وجہ طریقہ کار کا فرق تھا استاد اربکان اس عمارت کے اولین معماروں میں سے ایک تھے جہاں اردگان جیسے بہت سے پروان چڑھے ، استاد اربکان کی واضح اسلام پسندی کے باعث فوج نے انہیں بیدخل کیا ، جسکے بعد اردگان نے اپنا راستہ الگ کرکے اسی میدان میں کھیل کر فتح حاصل کی ، جسکے اصول سیکیولر فوج نے وضع کر رکھے تھے ۔۔۔۔

ترک تاریخ کا دیانت داری سے جائزہ لیجئے تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اردگان نے کتنے بڑے بڑے کام کئیے، ترکی کو پاکستان نہ سمجھیں جہاں مذھبی سیاست کی آزادی ہو اور مذحبی تنظیموں کو کام کرنے کی مکمل اجازت ہو ، وہاں تو خواتین کے سر پہ اسکارف لینے کے عام سے معاملے کے لئیے نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، باقی معاملات کا تو ذکر ہی نہ کریں

ہمارا حال یہ ھے کہ ابصار عالم کی جانب سے ایک آدھ رمضانی و دیگر فتنہ پھیلاتے کرنٹ افئیر کے پروگرام کا ھلکا پھلکا پھسپھسا سا نوٹس لینے پہ اپنی مسرت کا اظہار کرتے نہیں تھکتے { جیسی تیسی سہی خوشی کسی نہ کسی درجے میں بنتی ہی ھے } لیکن وہ اردگان جس نے غزہ کے معاملے پہ طویل عرصے سے اسرائیل کیساتھ قائم تعلقات کئی برس تک منقطع رکھے اور متعدد عالمی فورمز پہ اسرائیل کے خلاف کھل کر بات کی اھلیان غزہ تک کمک پہچائی { ابھی بھی غزہ کی حکمران حماس نے ترک صدر کے فیصلے کو خوش دلی سے تسلیم کیا ھے جس کے بعد ہمارا اعتراض ویسے بھی نمٹ جاتا ھے } ، مرسی کی غیر قانونی برطرفی پہ جب سارے عالم اسلام کے حکمرانوں کو چپ لگی تھی ، تب یہ اردگان ہی تھا جس نے مسلمانوں کی ترجمانی کی سیسی خائن کو آمر قرار دیا سفیر واپس بلایا اور اخوان المسلمون کیساتھ اظہار یکجہتی کیا ۔۔۔۔

شام کے مظلوم شہری جب ملک میں قائم اسد خاندان کی آمریت کے خلاف آذادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے کےساتھ اٹھے تو اردگان نے انکی مدد کی ، لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ، برما کے مسلمانوں کے لئیے آواز بلند کی ، پاکستان سے اس شخص کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔۔۔۔

یار لوگ ، ترکی میں ہونے والے حالیہ حملوں پہ اسے طعنے دے رھے ہیں کہ اپنی پالیسی کی سزا بھگت رہا ھے ۔۔۔۔
عرض ھے کہ ، افغان جہاد کے زمانے میں پاکستان صرف امریکی حکم پہ نہیں کودا تھا کہ اس سے بہت پہلے ، پشتون و بلوچ قوم پرست وہاں سے بیٹھ کر پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف تھے تب کے بم دھماکے نجانے ہمیں کیوں یاد نہیں ؟

ان دنوں پاکستان کے پاس یہی آپشن تھا کہ اس طوفان کے آگے جہادیوں کے ذریعے بند باندھے اور افغانستان میں ایسی حکومت کے قیام میں معاونت کرے جو پاکستان دوست ہو ۔۔۔ ظاھر سی بات ھے ایسی ہر پالیسی کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں وہ پاکستان و ترکی دونوں کو بھگتنے تو پڑیں گے لیکن یہ مرحلہ بھی گزر ہی جائیگا ۔۔۔۔

ترکوں کا سب سے بڑا مسلہ وہ کرد ہیں جو ترکی سے الگ ہوکر خودمختار ریاست کا قیام چاھتے ہیں اس ضمن میں انہیں عالمی قوتوں کی مدد حاصل ھے ۔۔۔۔
کرد ہمارے بلوچ و پشتون اور سندھی قوم پرستوں جیسے ہی ہیں جو اپنی ایک قوم پرست ریاست کردستان کے قیام نبرد آزما ہیں بلکہ عراق میں تو کردوں نے اپنا معاملہ الگ ہی کرلیا ہے ، فطری امر ھے ترکی اپنی حدود میں اسکی اجازت نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔ ترکی کیا، کوئی بھی ریاست ٹھنڈے پیٹوں اپنی تقسیم برداشت نہیں کرسکتی ۔۔۔

پہلی و دوسری جنگ عظیم کے بعد اسلامی ریاستیں قومی ریاستوں میں تبدیل ہوئیں ، انہیں آذاد کرنے والے بھی یہی چاھتے تھے کہ قوم پرستی کے غلیظ تصور کیساتھ دڑبوں لکیروں اور خانوں میں تقسیم ممالک باقی رہیں تاکہ انہیں کوئی خطرہ نہ ہو ۔۔۔۔
ایسے میں اگر اردگان یا مرسی جیسا کوئی ، کچھ نہ کچھ کرکے اقتدار تک پہنچ بھی جاتا ھے تو اسکے واسطے اتنی رکاوٹیں تیار کی جاچکی ہوتی ہیں کہ ان سے نبرد آزما ہونا بہت مشکل ہوتا ھے ۔۔۔۔

امت مسلمہ ایک زمانے سے قحط الرجال کا شکار ھے ایسے میں اردگان جیسے لوگ غینمت ہوا کرتے ہیں ، بطور حکمران اردگان سے غلطیاں ہوئیں کئی معاملات میں اسکی رائے ٹھیک بھی نہیں تھی کئی ایسی باتیں تھیں جنہیں نظر انداز کرکے اسے آگے بڑھنا چاھئیے تھا ، بہت سی پالیسیوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔۔۔۔
لیکن ان سب کے باوجود ہمیں پتہ ھے کہ وہ سیکیولر ریاست کا ایک ایسا مخلص مسلمان حکمران ھے کہ جسے بیک وقت شامی و ایرانی صدور ، امریکا و یورپ اور اسرائیلی سخت ناپسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

۔
آخر میں اسرائیل اسرائیل کا راگ الاپنے والوں کی خدمت میں بس اتنی سی عرض ھے ، اس صہیونی ریاست کو جنم دینے والے ، امریکا برطانیہ اقوام متحدہ اور مسلمانوں کے قتل و زمینوں پہ قبضہ کرنے والے امریکیوں روسیوں چینیوں اور ھندیوں سے جب تمام اسلامی ممالک نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں تو پھر اسرائیل پہ گرجنے برسنے کی ضرورت نہیں ، جس جس کو غیرت دکھانی ھے مکمل دکھائے یا پھر خاموش رھے ۔۔۔ ویسے بھی یہ سقوط و سکوت کا مقام ہے
رہا اقصی ، تو اسکی اذادی کے لئیے وہی جانیں دیں گے یا دے رھے ہیں جنہیں آپ ہم خارجی و دھشت گرد کہتے ہیں ۔۔۔
یہی عیسی ابن مریم کا لشکر ھے جو یروشلم کو تسخیر کرے گا ۔۔۔۔۔
ہماری افواج تو ہمیں ہی فتح کرنے کے لئیے بیٹھی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے