نفسیاتی بچی اور رمضان ٹرانسمیشن

ہمارے ایک رشتہ دار کا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے ہی نوزائیدگی سے لڑکپن کو پہنچا ۔ننھیال اور ددھیال میں پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے وہ شروع سے ہی اپنے مامو ؤں اور چچاؤں سمیت پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا بنا رہا۔اس کے ناز نخرے آخری حد تک اٹھائے گئے ۔ اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور حرکتوں کو باقاعدہ محفلوں میں ڈسکس کیا جاتا رہا۔لاڈ پیار اور توجہ کی جتنی بارش کسی پر ہو سکتی تھی وہ اس پر ہوئی۔لیکن کچھ سال بعد اس کے بھائی کی ولادت اور پھر خالااورچچاکے گھر بچوں کی آمد نے خاندانی سپاٹ لائٹ (spotlight) پر اس کی اجا رہ داری ختم کرا دی۔ہم صرف تصور کرسکتے ہیں کہ ایک چھ یا سات سال کا بچہ جس نے آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو توجہ کا محور پایا ہو یوں اپنے والدین اورباقی لوگوں کی عدم توجہ کا شکا رہوجائے تو اس پر کیا گزری ہوگی۔

پہلے یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ چڑچڑے پن کا شکا ر ہوگیا ،اس کے بعدکچھ عرصہ تنہائی پسند رہا،پھر کچھ وقت کے ساتھ اسکے رویہ میں مستقل تبدیلی آگئی جسے نفسیات کی زبان میں توجہ طلب رویہ (attention seeking behaviour) کہا جائے تو منا سب ہوگا۔عام طور پر یہ رویہ ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو بچپن سے تنہائی اور نظراندازی (neglect)کا شکار رہے ہوں ان میں توجہ حاصل کرنے کی طلب اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ اسکے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔یہ بچہ بھی اچانک آنے والے اس فیز سے جو شاید ہر کسی کے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آتا ہے، اپنی کچی عمر کی وجہ سے نمٹ(cope) نہ کر سکا اور ریکشن کے طور پراس (attention seeking behaviour) کی دلدل میں پھنس گیا۔

ا س نے سب سے پہلے اپنی عمر کے بچوں میں وقت گزارنے کی بجائے بڑوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھناشروع کر دیا اور ان کی باتیں اور ایشوز جو اسکی عمر کے لحاظ سے ہائی آئی کیو(IQ) کے تھے ان میں بے وجہ دلچسپی لینا شروع کردی۔پھر اس نے نقل اتارنے سے لے کر لطیفہ سنانے اور لگائی بجھائی سے لے کر چھوٹی موٹی باتوں کا بتنگڑ بنانے کا فن بھی سیکھ لیا اس کے ان مہار توں نے فیملی میں بہت سے مداح ب4140الے، اس کی ہر پرفارمنس پر خوب تالیاں بجنے لگی اور ساتھ کے ساتھ اس کی ذہانت کے قصہ زد عام ہونے لگے۔بالآخر جو توجہ اس سے چھن گئی تھی وہ چند سال بعد دوبارہ زیا دہ بھرپور طریقے سے حاصل ہوگئی ۔لیکن وہی و قت جب وہ اس تباہ کن (attention seeking behaviour) میں پوری طرح مصروف تھا اسکی تعلیمی کیرئر کا ابتدائی اہم فیز تھا۔

بدقسمتی سے ستائش(appreciation) کی خواہش نے اسکو اس میدان میں دوسروں سے بہت پیچھے چھوڑ دیا ۔وہ جو گھر میں اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کی وجہ سے مقبول تھا ، پڑھائی میں بری طرح سے پٹنے لگا ۔اسکے والدین کی آنکھیں بھی مسلسل ناکامی نے کھول دیں لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔ٹیوشن ، اکیڈمی اور کئی جتن بھی اس کو پٹری پر نہ چڑھا سکے۔دوسری جانب وہی خاندان کے لوگ جو اسکی ذہانت کے بڑے معتقد تھے اسے سر عام بگڑا ہوا بچہ قرار دینے لگے اور اس کے والدین کو اسے ڈھیل دینے کو اس کی نا لائقی کا ذمہ دار ٹہرایا جانے لگا۔اب وہ لڑکا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اپنا ضائع کئے ہوئے وقت کی تلافی اور اس رویے سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہا جو شروع (in the first place) میں اسکی بربادی کا سبب بنا تھا۔

ہمارے ملک میں ٹیلی وژن پر چلنے والے گیم شوز اور رمضان ٹرانسمیشنز کے عروج و زوال کی تاریخ اس لڑکے کی پندرہ سالہ زندگی کے نشیب و فراز سے کچھ مختلف نہیں ہے۔شروع میں جب ایک ہی سرکاری چینل ہوتا تھا تو اس کے ہر ڈرامے اور پرو گرام کو چاہے وہ معیاری ہویا نہ ہو، ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ستر کی دہائی میں جب طارق عزیز نے نیلام گھر شروع کیا تو اسکو بہت پزیرائی ملی ۔ یہ شوہر لحاظ سے ٹرینڈ سیٹر(trend setter) تھا۔اپنی اصل میں گیم شو کے طرز پر بنائے جانے والے اس پروگرام میں گیمز کم اور دوسرے سیگمنٹ زیادہ تھے۔پہلی دفعہ کسی شو میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت، ملکی اور بین الاقوامی برینڈز کی مختلف سوالات اور کوئز مقابلوں کے لئے سپانسرشپ اور مہنگے انعامات دینے کا آغاز ہوا۔اس کے علاوہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی پروگرام میں شرکت اور چھوٹا موٹا انٹرویو پھر حمد ، نعت ، شعر و شاعری ا ور موسیقی کے لئے علحیدہ سیگمنٹ اس کی خاصیت تھے۔ یہ شو تقریبا تین دہائیوں تک کچھ وقفوں کے ساتھ اپنی مقبولیت قائم رکھے رہا جسکی وجہ شائستگی اور متانت کا اس شو میں ہمیشہ خیال رکھا جانا اور دو نسلوں (generation) کی تربیت میں اس کا اہم رول تھا۔

پرائیویٹ چینلز کا جب دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کی جن بہت سے ٹرینڈز کو کاپی کرنے کی کوشش کی گئی ان میں طارق عزیز کا یہ شو بھی شامل تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے پہلے اسکا تجربہ رمضان ٹرانسمیشن پر ہوا۔ طارق عزیز کے شو کے پیٹرن کو کچھ اوپر نیچے کر کہ افطار اور سحر کے اوقات میں ایسا فٹ کیا گیا کہ مقبولیت کے سارے ریکارڈ ٹو ٹ گئے۔گانوں کی جگہ قرآن پاک کی تلاوت آگئی، علماء سے فقہ کے مسائل حل کرانے کے لئے کالز کا سلسلہ شروع کیا گیا، ضرورت مندوں کی مدد کے لئے علحیدہ ایئر ٹائم مختص کیا گیا، انعامات کی تعداد اور قیمت میں نا قابل یقین اضافہ دیکھنے میں آیا جانے لگا۔غرض اس شو میں شروع سے آخر تک دلچسپی برقرار رکھنے کی وجہ سے پورے رمضان ناظرین اورحاظرین لگے بندھے بٹھائے رکھا ۔

اس ٹرینڈ کے ہٹ ہوتے ساتھ ہی اگلے سال رمضان میں اس ٹرانسمیشن کی ہوا چل پڑی۔ توقع یہ تھی کہ رمضان کے بابرکت اوقات میں یہ ٹرانسمیشنز ہماری دینی اور علمی معلومات میں اضافہ کے ساتھ ہلکی پھلکی تفریح بھی فراہم کریں گے جس سے ہمارے افطار اور سحر کا وقت اچھا گزر جائے گا لیکن ان پروگرامز نے وقت کے ساتھ مختلف راستہ ہی اختیار کر لیا۔جس چینل کے ہاتھ جو اداکار یا اداکارہ لگی اس کی شیو بڑھوا کر یادوپٹا پہنا کر اسے ہوسٹ بنا دیا گیا۔اب چونکہ مقابل بازی (competition) تھی،ریٹنگ کی دوڑ تھی ، ا س کا فو ری نتیجہ ناظرین کی ویور شپ حاصل کرنے کے لئے توجہ طلب رویہ (attention seeking behavior) کے اوچھے ہتکھنڈوں کا ان پروگرامز کا لازمی حصہ بننے کے طور پر نکلا ۔

انعامات کے لئے بزرگوں اور عورتوں سے لائیو ڈانس کرائے جانے لگے، حاظرین کی شکل و صورت پر پھبتیاں کسی جانے لگی، مرد اور خواتین نعت خواں کندھے سے کندھا ملا کر درود و سلام پڑھتے نظر آنے لگے،فلمی شخصیات سے رمضان کی برکتوں پر تبادلہ خیال کیا جانے لگا،کبھی حاظرین کو ان سکرین گالی دینے تو کبھی خودکشی کے نقلی کوشش کر کے دکھانے کے مطالبہ کئے جانے لگے، کہیں نازک مذہبی معاملات پر غیر ضروری سوال اٹھائے جانے لگے تو کہیں علماء کی تحقیر کو معمول بنا لیا گیا، رومانوی گانوں کی دھنوں پر رقص سے لے کر اظہار محبت جیسے پتہ نہیں کتنی اخلاقیات سے گری حرکتیں پچھلے کئی سال سے رمضان کی ٹرانسمیشنز میں کھلم کھلا ہو تی چلی آرہی ہیں، اب حال یہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ نے ان ٹرانسمیشنز کے دوران ٹی وی ہی بند کر دیا ہے۔

پیمرا کو اس سال تھوڑا بہت ہوش آیا ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے کا وقار مجروح کرنے کے سلسلہ کو قابو میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،لیکن طو فان بد تمیزی اس قدر ہے کہ کچھ پروگراموں کی جزوی ، کلی بندش اور وارننگ نوٹس بد اخلاقی کے ان ہا تھیوں کو نکیل ڈالنے کیلئے نا کافی ثابت ہورہے ہیں۔اگر ٹرانسمیشنز میں کوئی ایک مسئلہ ہو تو تنبیہ یا بند ش کی دھمکی کچھ ا ثر کر سکتی ہے ،لیکن اگر یہ بذات خود ایک اخلاقی مسئلہ بن چکی ہوں تو ہر سر زنش ہی بے معنی ثابت ہوگی اور ہو رہی ہے۔ اس صو رتحال میں اگر کوئی تبدیلی آسکتی ہے تو وہ خود چینل انتظامیہ کی طرف سے ہی ممکن ہے۔لیکن وہ اس بات سے بے پروا ہیں کہ سنجیدہ طبقہ ان کی پھکڑ بازیوں کو کس طرح دیکھتا ہے ،عوام میں ان کی کچھ مقبولیت برقرار ہنا ہی ان کے لئے موجودہ روش پر قائم رہنے کے لئے کافی جواز ہے۔

کڑوا سچ یہ ہی ہے کہ یہ چینل ایک بگڑے ہوئے بچے کی طرح ہر بہتری کی کوشش کے اثر انداز ہونے سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔وہ کیو موبائل ، لان کے سوٹ اور موٹر سائیکل کے انعامات سے غریب عوام کی جس توجہ کوحاصل کر کے بڑے سرشار ہیں انھیں یہ یا درکھنا چاہیے کہ جو اوٹ پٹانگ حرکتوں پر تالیاں بجاتے ہیں وہی لوگ بعد میں لعنت ملامت میں سب سے آگے ہوتے ہیں ۔اس لئے اخلا قی اصولوں کی پابندی میں ہی میں ان شوز اور ٹرانسمیشنز کی بقا ہے ،جس کی زندہ مثال چار دہائیوں سے چلنے والا طارق عزیز شو ہے ، کیونکہ جس دن عوام کا دل ان سے بھر گیا اس دن بگڑے بچہ کی طرح ان کی ڈگڈگی کے فن کا نہ کوئی تماشائی ہوگا اور نہ ہی کو ئی پرسان حال

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے