مماثلتیں ، کیا کیا ؟؟؟

ایک بات طے ہے کہ کچھ مماثلتیں اتنی گہری اور بھرپور ہوتی ہیں کہ انسان چاہے بھی تو ان کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔21 ویں صدی کی پہلی دہائی میں فیس بک اور ٹوئٹر کے زیر سایہ پروان چڑھتے اور بظاہر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی "بے سری تان” پر سوار سر پٹ دوڑتے دانشور، زر ا دیر دل تھام کے اور دماغ استعمال کرکے، تھوڑا وقت سوچ بچار کے لئے بھی نکالیں تویہ گہری اور بھرپور ممماثلتیں، نہ صرف ان کی کاٖفی غلط فہمیاں دور کرسکتی ہیں بلکہ جمہوریت کو بھی ٹھیک ٹھاک افاقہ ہوسکتا ہے۔

شخصیت پرستی کی بیماری میں مبتلا صحافتی نابغے، اپنے لیڈران کی عظمت کے خمار سے نکل کر، زمانہ حال کی مروجہ صحافتی روایات کے برعکس تھوڑا وقت تحقیق اور مطالعے کو بھی دے دیں تو ان کاسامنا ایسے ہوشربا بیانات اور انکشافات سے ہوگا کہ وہ اور ان کے معزز ترین سیاسی رہنما، شرم سے منہ چھپاتے پھریں گے۔ لیڈران کرام کی کہ یہ کارگزاریاں کچھ اس شدت سے ان کی آنکھیں کھولیں گی کہ جمہوریت کے "نقلی چیمپئن” بنے یہ "اداکار” انہیں آمریت کے "اصلی ہرکارے” دکھائی دینگے۔

حالیہ چند عرصے میں پانامہ لیکس کے انکشافات اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتساب کے مطالبے کو حکومت اور وزیراعظم کے خلاف "سازش” قرر دینے والے وہ وقت شاید بھول گئے ہیں جب اس ملک پرعوام ہی کے ووٹوں سے دوسری مرتبہ منتخب ہونےوا لی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف ” تمام حلقوں ” کے ہر دلعزیز اپوزیشن رہنما تھے۔

کہانی جو میں، آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ زیادہ نہیں صرف 20 برس پرانی ہے اور اس کہانی کے نام ، کردار اور واقعات ہرگز فرضی نہیں اور نہ ہی اس کہانی کی ، آج کے دور کی کسی کہانی سے مماثلت "محض اتفاقیہ” ہوگی۔اس کہانی کو سمجھنے اور اس کے حقانیت پر ایمان لانے کے لئے آپ کو کسی قریبی لائبریری جاکر 20 برس پرانے اخبارات کی فائلوں سے گرد کی تہہ ہٹانا ہوگی۔

یہ جون 1996 کامہینہ تھا جب پاکستانی قوم نے قومی اخبارات میں سرے محل اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی لندن میں جائیداد کا ذکر سنا۔آج کے وزیراعظم اور اس وقت کے اپوزیشن رہنما نوازشریف کے 10 جون سے 17 جون 1996 کے درمیان کیا کیا "فرمودات عالیہ "اخبارات میں شائع ہو ئے اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور حکومتی ترجمانوں نے کیا ردعل دیا، پڑھییئے اور سر دھنیئے۔۔۔۔۔
وزیراعظم نے لندن میں عظیم الشان جائیداد خریدی، رقم کہاں سے آئی، نواز شریف
وزیراعظم نے لندن میں کوئی بنگلہ نہیں خریدا، خبر جھوٹی ہے، ترجمان وزیراعظم
مکان خریدنے کا الزام لگانے والے کمینے ہیں، وزیراعظم بے نظیر
وزیراعظم کی لندن میں جائیداد الزام نہیں حقیقت ہے، اسمبلی میں صفائی دیں، نواز شریف
الزام لگانے والے ثبوت دیں، میں اسمبلی میں صفائی کیوں پیش کروں؟؟؟بے نظیر
نواز شریف نے خود کوآپریٹو کا مال کھایا ہوا ہے، وزیراعظم بے نظیر کا جوابی وار
وزیراعظم ہم پر گرجنے برسنے کی بجائے برطانوی عدالت سے رجوع کریں،،، نواز شریف
عدالت نہ گئیں تو واضح مطلب ہوگا کہ ویزراعظم مجرم ہیں، نواز شریف
وزیراعظم کے استعفی سے کم پر بات نہیں ٹلے گی،نواز شریف
حکومت کے خلاف سازش ہورہی ہے، وزیراعظم بے نطیر بھٹو
بعض حلقے جمہوریت کی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں، حکومتی وزرا
وزرا نے بھانت بھانت کی بیانات دے کر وزیراعظم کی پوزیشن مشکوک کردی ہے، نواز شریف
حکومت چیف جسٹس کی سربراہی میں احتساب کمیشن بنائے، اپوزیشن کا مطالبہ
حکومتی کرپشن کے چرچے بیرون ملک پہنچ گئے،سنڈے ایکسپرس نے سچی خبر دی، نواز شریف
حکومت نے احستابی کمیشن کے قیام کی تجویزمشروط طور پر منظور کر لی۔
کرپشن کے خاتمہ کے لئے ٹرمز آف ریفرنس تیار کرنے نے لئے 6 رکنی کمیٹی بنائیں گے، حکومت
اپوزیشن اپنے 3 ارکان نامزد کرے، احتساب صرف وزیراعظم نہیں سب کا ہوگا، حکومت

مندرجہ بالا بیانات میں جس جس جگہ نواز شریف لکھا ہے وہان عمران خان لکھ ڈالیئے، اور جہاں بے نظیر لکھا ہو اہے وہاں نوازشریف لکھ دیجئے، یہ بیانات آج بھی اتنے ہی relevant ہوجائیں گے، جتنے 20 برس پہلے تھے۔ کیوں ہے نا ! پاکستانی سیاست کا دوسرا نام، جادو کی دنیا!۔

اگرچہ اپوزیشن رہنما میاں نواز شریف پر سرے محل کا ” انکشاف ” 10 جون کو ہوا تھا مگر ان کے 25 مئی 1996 سے لیکر 9 جون 1996 تک کے بیانات بھی خاصے ” دلچسب ” اور ” بھرپور ” تھے۔

کرپٹ سیاست دانوں پر تا حیات پابندی ہونی چاہیئے۔ اپوزیشن لیڈر نواز شریف 25 مئی 1996
حکومت سے نجات کے لئے علما اور مشائخ کے ساتھ مل کر جدوجہد کرینگے، نواز شریف
احتسابی کمیشن کے لئے ریفرنڈم کروائیں، نواز شریف کا صدر لغاری کوخط
ہر فرد کرپشن سے تنگ آچکا ہے،عوام ہمارے ساتھ ہیں، نواز شریف
یہی حکومت رہی تو پاکستان کرپشن کے میدان میں عالمی چیمپئن بن جائے گا، نواز شریف
حکومت نے میری کردار کشی کی مہم شروع کر کررکھی ہے جس کا مقصد احتساب کے مطالبے سے دسبردار کرانا ہے مگر میں کمیشن کے قیام تک چین سے نہیں بیٹھوں گا، نواز شریف
چوہدری نثارجلد ایک اسکینڈل منظر عام پر لارہے ہیں، جس میں اہم انکشافات ہیں، نواز شریف
وقت آن پہنچا ہے جب حکمرانوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی، نواز شریف 9 جون 1996

مندرج بالا بیانات چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ میاں صاحب کو "الہام ” ہوچکا تھا کہ سرے محل کا موقع محل بس آنے ہی والا ہے۔
جون 1996 کے پہلے ہفتے میں بعض دیگر ” جمہوریت پسند "اپوزیشن رہنماوں کے بیانات ملاحظہ فرمایئے۔

معاشرے کو کرپشن کی لعنت سے نجات دلا کر رہیں گے، شہباز شریف
پاکستان، تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے، بے نظیر کو کرسی چھوڑنا ہوگی، اجمل خٹک
چند دنوں میں میدان گرم ہونے والا ہے، وقت آچکا ہے کہ اقتدار زبردستی چھین لیں، بیگم نسیم ولی
کرپشن کے خاتمے کے لئے غیر جانبدار اعلی عدالتی احتسابی کمیشن قائم کیا جائے، سرتاج عزیز
ان دنوں اپوزیشن رہنما میاں نواز شریف نے اس وقت کے صدر فاروق لغاری کے نام دو خطوط بھی لکھے تھے ( پہلا 2 جون جبکہ دوسرا 18 جون کو ) جن میں صدر محترم سے ریفرنڈم کروانے اور اپنا آئینی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میاں صاحب کے مشہور زمانہ دو خطوط نے ” ماحول ” بنا کے لوہا گرم کردیا تھا جس کے بعد اب صرف چوٹ مارنے کی دیر تھی۔ اس مخصوص ماحول کے بعد 19 جون سے لیکر 30 جون 1996 کے اخبارات میں کیا کچھ چھپا؟ زرا دیکھئے تو !

ہماری جدوجہد آخری مرحلے میں داخل ہونےو الی ہے، نوازشریف 19 جون1996
نواز شریف نے 23 جون کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی
سرے محل وزیراعظم سے واپس لیکر غریبوں کا مقدر سنواریں گے، نواز شریف،21 جون
قاضی حسین احمد کا 24 جون کو پرائم منسٹر سیکریٹیڑیٹ پر دھرنے دینے کا اعلان،
اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے قاضی حسین احمد کے دھرنے کی حمایت کردی۔
اپوزیشن کو لاش کی تلاش ہے، بے نظیر 23 جون
راولپںڈی میں پولیس کی اندھا دھند فائرنگ، 4 افراد جاں بحق، 85 زخمی
وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف، قتل مقدمہ کی درخواست
حکومت بدمعاشی کر رہی ہے، بلدیاتی ارکان، اداروں پر قبضہ کرلیں، نواز شریف
ججوں کو اقتدار کا دانہ ڈال دیا گیا ہے، بے نظیر، 30 جون1996

مندرجہ بالا "ماحول ” کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو امپائر کی انگلی کا طعنہ دینے والے یہ "مہان” اصل میں اندر سے وہ "بونے” ہیں جن کو ماضی کے امپائر پوری انگلی پکڑانا توہین سمجھتے اور صرف "ناخن” پر ہی نچاتے رہے ہیں۔

بیس سال پہلے میاں نواز شریف کی سربراہی میں اپوزیشن نے بات ،لندن کے سرے محل سے شروع کرکے موقع محل تک پہنچا دی تھی اور یوں فائدہ اٹھانے والوں نے موقع سے پورا فائدہ اٹھا لیا تھا۔کہانی اس بار بھی لندن کے "مے فیئر فلیٹ” سے شروع ہوکر پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں سے ہوتی ہوئی بلاامتیاز احستاب تک پہنچی ہے۔ مگر اس بار فرق یہ ہے کہ "سرے محل” اور "موقع محل” والے ” سپنوں کا محل ” سجانے والوں کے خلاف ” اندرون خانہ ” ایک ہیں۔ اس لئے ستو پی کر، سو ئے رہیں جناب !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے