معاشرے میں صنف کی تفریق روزِ ازل سے موجود ہے۔ ہر دور میں سماج مرد اور عورت کو ان کے صنفی کرداروں میں تقسیم کر کے دیکھتا آیا ہے۔ دورِ حاضر میں پہلے جنس اور پھر صنف بکتی رہی۔ اوراس خرید و فروخت میں خریداروں کے ساتھ ساتھ معاشرتی معیارات بھی تبدیل ہوتے رہے۔ آج حقوقِ نسواں کا دور دورا ہے۔ صنفی آزادی اور برابری ،غیر سرکاری تنظیوں اور بین الاقوامی اداروں کا ہر دل عزیز موضوع ہے۔ مجھے اس سوچ سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں۔ چند بنیادی سوالات اس حوالے سے جنم لیتے ہیں جنہیں ضبطِ تحریر لانا چاہ رہا ہوں۔
صنفی امتیاز اور صنفی تقسیم کا موضوع صرف عورت کا احاطہ کیوں کئے ہوئے ہے؟
صنفی امتیاز، تقسیم اور تشدد کا نشانہ مرد بھی اسی قدر بنتا ہے کہ جس قدر ایک عورت۔معاشرہ ایسی کئی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔
گھر میں گھریلو (اعصابی) تشدد کا شکار کئی مرد معاشرے میں "گمراہیوں” کا شکار ہوئے پھرتے ہیں۔ اس معاملے میں مظلوم کون؟
صنفی معاملات پر گفتکو کرتے ہوئے ہم سماج اور ماحول کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔
مشرق اور مغرب کے سماج میں پائے جانے والے فرق کو سامنے رکھے بغیر صنفی امتیاز کے سوال کا جواب تلاش کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
جس طرح مشرق کے کے ضابطے مغرب پر لاگو نہیں ہو سکتے۔ مغرب کے معیارات تک پہنچنے میں ابھی مشرق کو وقت لگے گا۔
حالات کا جائزہ لیا جائے تو مرد بھی صنفی امتیاز کا نہ صرف شکار ہے بلکہ کئی مرتبہ اسے بد ترین تشدد کا شکار بھی پایا گیا۔
بدقسمتی سے ابھی ہمارے یہاں صنفی برابری سے مراد صرف عورت کے معاشری کردار سے لی جاتی رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صنفی برابری کے احاطے میں مرد اور عورت دونوں کو لایا جائے اور دونوں کے مسائل اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے آگاہی فراہم کی جائے۔
کیا ایک مرد سے قربت اختیار کر کے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھ اور دکھا کر ایک دم بیچ منجدھار اسے چھوڑنے والی خواتین اسے اعصابی تشدد کا شکار بنانے کی مجرم نہیں؟ (اس منظرنامے کو پاکستانی معاشرے کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے)۔
اس تحریر کا مقصد مردوں کے غیر اخلاقی رویے کو جوازفراہم کرنا ہرگز نہیں بلکہ صنف کے تناظر میں منظرنامے کا دوسرا رخ سامنے لانا اصل مقصود ہے۔
ہمارے بچپن کا ایک دوست مثال دیا کرتا تھا کہ اگر کوئی شخص تم پر بد ترین تشدد کرتا ہے لیکن تمھارے وجود پر کوئی زخم نہیں چھوڑتا اور جواباً یا اپنے بچاومیں تم اسے ایک پتھر مارتےہو جس کا زخم اسکی پیشانی پر عیاں ہو۔ تو قانون کی نظر میں معصوم اور مظلوم وہ ہوگا تم نہیں۔
اسکی دی مثال اس معاملے میں صادق ثابت ہوتی ہے۔
مرد کی بدقسمتی کہ معاشرہ اسے مضبوط، طاقتور، حاکم اور کبھی کبھی جابر کے کردار میں دیکھتا ہے۔ اس سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کسی طور کمزور ہوگا۔
معاشرتی اور صنفی طور پر وہ بدترین استحصال کا شکار ہونے کے باوجود کوئی یہ تسلیم کرنے پر رضامند ہونے کو تیار نہیں ہو پائے گا کہ مرد استحصال اور تشدد کا شکار عورت کے ہاتھوں بنا۔
جس معاشرے میں عورت کو احترام کی بلندیوں پر دیکھا جاتا ہو۔ غیرت کا معیار تصور کیا جاتا ہو اس معاشرے میں مرد کی عورت سے وابستگی کسی صورت بھی واجبی نہیں ہو سکتی۔ خصوصا اگر مرد عورت کے ساتھ اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے، گھر بنانے، خواب سجانے کئی موقعوں پر تو بچوں کے نام تک منتخب کرنے تک جا پہنچے۔
یہ مثال میری آنکھوں کے سامنے کی ہے۔
میں نے ایک مرد کو پرستش کی حد تک ایک خاتون کو چاہتے دیکھا۔
شادی شدہ تھا۔گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے پریشان۔ دفتر میں ساتھ کام کرنے والی محترمہ نے کمزور لمحوں کا فائدہ اٹھاتے قربت اختیار کی۔ خواب دیکھے اور دکھائے۔ ہر موقع کا فائدہ اٹھایا۔ معاشرے میں شناخت کے حصول سے معاشی اور معاشرتی فوائد تک۔
ایک سال بھر کے بھر پور معاشقے کے بعد خاتون نے یکسر نگاہیں بدل لیں۔ عقدہ کھلا کہ مہینہ بھر قبل وہ ایک اور "دوست” کی محبت میں غلطاں ہو گئیں۔
ان صاحب کی دنیا لٹ گئی۔ خودکشی کی کوششیں ۔پاگل پن کے دورے۔ اعصابی تباہی اور بہت کچھ۔
اس دوران کچھ گئے لمحوں کے واسطے۔ کچھ غم زدہ غصے بھرے الفاظ اور جذباتی دھمکی آمیز فکرے پیغام کی صورت میں اس مخصوص ذہنی کیفیت میں اس خاتوں کو بھجوائے۔ اور خاتون نے موقع غنیمت جانا۔
پیروپیگنڈے اور بلیک میلنگ کا ایک طوفان برپا کر دیا۔ قانونی کاروائی اور ان صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر فرد تک رسائی کر کے اسکا جینا دشوار کر دیا۔
ان صاحب کا جذباتی عمل کسی طور پر قابل ستائش نہیں لیکن کیا اس سارے واقعے میں وہ اکیلا گناہ گار ہے؟
کیا وہ پہلے اعصابی اور جذباتی تشدد کا شکار نہیں ہوا؟
کیا اب وہ صنفی تشدد کا شکار نہیں؟
کہ جب مرد ہونے کی وجہ سے بغیر معاملہ جانے ہر ایک کے نزدیک وہ مورودِ الزام ہے۔ کیونکہ الزام لگانے والی ایک عورت ہے۔ لہذاطے کر لیا گیا کہ "معصوم اور مظلوم” عورت ہی ہے۔
ذمہ داری عائد ہوتی ہے صنفی امتیاز کے خلاف کام کرنے والے تمام سماجی کارکنان پر خصوصاً خواتیں پر کہ وہ صنف کے دونوں کرداروں کو برابری کی سطح پر دیکھیں اور ہر واقعے اور معاملے میں ضرور جائزہ لیں کہ کون معصوم اور مظلوم ہے۔ نہ کہ صرف جنس کی بنیاد پر طے کر لیں کہ مرد ہی مجرم ہوگا۔
[pullquote]سید مدثر نذر
[/pullquote]
بلوچستان یورنیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ سیاست ۔ امن اور تصوف پسندیدہ موضوعات ہیں۔ سلوک کے نام سے اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کے بانی ہیں۔