‘اوئے بند کرو یہ سب’

فیس بک کی اس پوسٹ میں ضرور دیکھئے کا عنوان دیکھ کے تجسّس نے مجھے بھی وہ ویڈیو دیکھنے پہ مجبور کیا۔ پوسٹ کی ٹیگ لائن میں لکھا گیا ایک جملہ بھی خاصہ سڑک پہ لگے سپیڈ بریکر کی طرح اچانک روک لینے والا تھا کہ ‘ایسا کمرشل جس نے پورے پاکستان میں دھوم مچا دی’۔ کمرشل دیکھے کے بعد دل انتہائی جذباتی ہوا جاتا تھا۔ غالبا یہ پہلا تاثر تھا جس سے ہر ایک دیکھنے والے کا واسطہ ضرور پڑا ہو گا۔ اور یہ تاثر یقینا ً تب تک تو قائم رہا ہو گا کہ جب تک اوریا مقبول جان صاحب نے اس میں انتہائی مغز ماری اور باریک بینی کے بعد اس میں عریا نیت کے ہزار پہلو واضع نہیں کر دیئے ہوں گے۔ اس کمرشل سے متعلّقہ یہ دوسری ویڈیو تھی جسے میں نے ٹیگ لائن سے متاثر ہو کے دیکھا اور یہ سوچتے سوچتے اوریا صاحب کی یہ ویڈیو پلے کی کہ انہیں بھلا اس کمرشل پہ کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے میں اوریا صاحب کو سنتا گیا اس کمرشل کا پہلا روشن اور جذباتی تاثر اس باؤلنگ کراتی لڑکی کی یونیفارم کی تہوں میں جھانکتے جھانکتے عریانیت کی کالک سے سیاہ ہونے لگا ، مجھے ایسا لگا جیسے اوریا صاحب میری انگلی پکڑ کے مجھے اس علاقے کی سیر کرا رہے ہوں اور بتا رہے ہوں کہ یہ دیکھو یہ پہاڑ ہیں اور یہ میدان ۔ میں جو کہ انتہائی ناقص العلم، گناہگار اور خطا کار سا انسان ہوں، اپنی نا پاکیزہ نظروں کو کوسنے لگا کہ میری بے شرم نگاہیں وہ کیوں نہ دیکھ سکیں جو نگاہ اوریا صاحب پہ فورًا منکشف ہو گئی۔ پھر میں نے خود کو یہ کہہ کے تسلی دی کہ ایک عام فہم، حقیرالعقل اور گناہگار کی نگاہ علم وعقل و دانش ، شرافت، فرشتہ سیرت اور کشف و تصوّف کی پیکر نگاہوں میں یہی تو بڑا فرق ہے کہ انہیں پردے کے پیچھے اور چولی کے نیچے کیا ہے اس لیے نظر آتا ہے کیوں کہ ان کی نگاہیں اندر تک جھانکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جو انسان کے اندر چھپے انسان میں وہ سب بھی بآسانی دیکھ لیتی ہیں جو عام انسانوں کو نظر نہیں آتا، جو غیب و باطن کو ایسے دیکھتی ہیں جیسے ہم روز آئینہ دیکھتے ہیں، اوریا صاحب کی تو بات ہی الگ ہے، وہ تو ملک میں آنے والے زلزلے کو وقت سے پیشتر خواب میں دیکھنے کی کرامات بھی رکھتے ہیں، اس کمرشل میں لڑکی کے جسم پہ معمولی کپڑوں کی کیا مجال کہ ان کی عقابی اور کشفی کراماتی نگاہ کے سامنے بند باندھ سکیں۔

اوریا صاحب کے مقابل میں سورج کے سامنے چراغ کی سی حیثیت بھی نہیں رکھتا، وہ ایک صاحب علم ہستی ہیں اور دینی اور دنیوی تاریخ پہ کافی مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ لیکن فقط ایک صاحب شعور ہونے کے ناطے کچھ سوال ذہن میں ضرور ابھرتے ہیں۔ مذہب اور مذہب کے احکامات سے انکار نا ممکن، شریعت میں پردے کی اہمیت ایک اٹل حقیقت لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ اپنی ہر بات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے پہ تلے ہوئے ہوں کہ معاشری بے راہروی کی اکلوتی ذمہّ دار فقط عورت ہے اور سبھی پابندیاں اسی پہ لازم ہیں۔ اوریا صاحب مخلوط ماحول کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ ان کی باتوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ عورت ایک چاردیواری اور ایک مرد کی باندی ہے اور اس چاردیواری کے باہر کی دنیا اس کے لئے بنی ہی نہیں۔ عورت کو کوئی حق نہیں کہ وہ جہاں مرد قدم رکھ لے اس ممنوعہ علاقے میں قدم رکھنے کی جرأت بھی کر سکے۔ بازار، محفلیں، آفسز، پارک، جلسے جلوس غرضیکہ روٹی، سالن، برتن، بچے اور شوہر کے علاوہ دنیا اس پہ ایسے حرام ہے جسے مدینہ کافروں پہ۔

فحاشی ہے کہاں، کیا یہ فقط عور ت کی بے پردگی میں ہے یا مرد کی تربیت و کردار اور سوچ بھی اس گناہ میں برابر کی شریک ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مخلوط ماحول ہی گناہوں کی سب سے بڑی وجہ ہے تو یہ جو بچوں سے زیادتی کے واقعات روز اخباروں کی زینت بنے ہوتے ہیں کیا یہ اختلاط کی ہی بدولت ہیں۔ اس قانون کے تحت تو پھر بچوں کو اسکولوں میں یا مسجدوں میں بھجوانا ہی نہیں چاہئے کیوں کہ زیادتی کے اکثر قصّے تو انہیں درسگاہوں سے ہی جڑے نظر آتے ہیں تو کیا ہمیں مرد کے مرد سے ملنے پہ بھی پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
گناہ کی تحریک کہاں سے اٹھتی ہے۔ آپ ماحول، کم لباسی، عریانی یا بالخصوص عورت کسی کو بھی بنیاد بنا لیں لیکن گناہ کا آخری فیصلہ تو آپ کے اپنے ایمان نے کرنا ہے۔ اس تک پہنچ تو فقط آپ کی اپنی ہوتی ہے۔ وہ کتنا کمزور ہے اور کتنا طاقتور، یہ تو آپ کی ریاضت پہ منحصر ہے۔ کیا کوٹھوں میں نمازی نہیں بستے اور کیا مسجدوں میں لوگ قتل نہیں ہو رہے۔ امتحان آپ کی اپنی شیطانیت کا ہے اور سب سے بڑا شیطان تو انسان کے اپنے اندر ہے ورنہ شیطان مجسّم کی رمضان میں بندش کے بعد جھوٹ، فریب، بدکاری، گراں فروشی، قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی کیا ممکن تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم گناہ کرنے سے پہلے الزام کا کندھا ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں کبھی شیطان کا ملتا ہے تو کبھی عورت کا۔

میں اور میرے کچھ دوست جب نئے نئے انگلینڈ گئے تو برف باری کا موسم تھا۔ موسم کچھ بہتر ہوا تو ہم بھی باہر نکلے۔ توقع اور خواہش کے عین مطابق وہاں بازاروں میں نہ عریانیت کی کمی تھی اور نہ مخلوط ماحول کی۔ گناہ گار تو تھے ہی ، دل کھول کے خواہش کی تکمیل کی اور ٹھنڈے ماحول میں آنکھیں سیکتے رہے۔ شروع شروع میں ہر نظارے پہ دل سینے سے باہر آنے لگتا تھا مگر جیسے جیسے اس معمول سے اکثر واسطہ پڑا نظریں بھی کفر سے پھرنے لگیں اور مسلمان ہو گئیں۔ آدھے سے زیادہ ننگے جسموں کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے اور کام کرتے ہوئے ہماری تو جرات نہ ہو سکی کہ چھو کے دیکھ ہی لیں کہ حقیقت ہے یا خواب۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک با ر ہم سب دوست ایک پارک میں بینچ پہ بیٹھ کے گپیں مار رہے تھے کہ ایک خاتون نے پاس آ کے پوچھا ‘گائز! ڈو یو وانٹ بزنس’ اور ہم انتہا کے گناہگار اور کم علم و کم فہم کورس میں اسے فقط یہی کہہ سکے کہ‘نو تھینک یو’

مری اوریا صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے اور اپنے دیکھنے والوں کے ایمان کو ان معمولی کمرشلز سے نہ ڈرائیں اور نہ اس قدر ایمان کی کمزری کا اقرار کریں اور وہ بھی اس قدر کہ نگاہیں اس درجہ ایکسرے ہو جائیں کہ وہ دیکھنے لگیں جو میرے جیسے گناہ گار نہ دیکھ پائیں ۔ مسلمانوں کو کمزور صفت عورت کی ضرورتا ً قربت سے خوف زدہ نہ کریں بلکہ انہیں اندر کے شیطان سے لڑنے کا کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ جس سے وہ اندر سے اتنے مضبوط ہو جائیں کہ وہ دعوت گناہ کی کھلی پیشکش کو ‘نو تھینک یو’ کہہ کے ٹھکرا سکیں۔ جس سے وہ اپنے اندر کے شیطان کو زیر کر سکیں کیوں کہ جنگل میں تمام دنیا سے کٹ کے رہنے والی کوئی اکیلی عورت یا کوئی اکیلا مرد شریف نہیں ہے کیوں کہ اسے گناہ کے امتحان سے گزرنا ہی نہیں پڑا۔ شریف تو وہ ہے جو کسی کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھ کے پلٹے تو اس کے کپڑوں پہ گناہ کی ایک سلوٹ بھی نہ ہو۔ لڑائی اس کمرشل سے نہیں اس شیطان سے ہے جو ایک باؤلنگ کراتی لڑکی کے کپڑوں کے اندر تک کی خبر آپ کو دیتا ہے اور آپ کا ایمان اتنا متزلزل ہونے لگتا ہے کہ آپ گھبرا کےچیخ اٹھتے ہیں کہ ‘ اوئے بند کرو یہ سب’۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے