انسانیت کا خادم چل بسا…

قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوؤں کے چنگل سے چھٹکارا دلانے کے لئے انتھک محنت اور کوششیں کیئں اور ملک پاکستان کو یہاں کے بسنے والے مسلمانوں کے لئے ایک الگ شناخت دینے کے لئے بنایا۔ 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کے عوام رہتی دنیا تک قائد اعظم کا نام نہیں بھولیں گے۔ اسے لئے انھیں بابائے قوم کا خطاب ملا۔
جبکہ
بابائے خدمت خلق عبدالستار ایدھی جنوری 1928 کو بھارتی گجرات میں پیدا ہوئے۔ ابھی گیارہ برس ہی کے تھے کہ والدہ پر فالج کا دورہ پڑا۔ اس کے بعد عبدالستار ایدھی نے ماں کی دیکھ بھال خود کی۔ 19 سال کی عمر میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔

ہجرت کے بعد پاکستان کے شہر کراچی آئے جہاں ایک ہول سیل کی مارکیٹ میں کپڑے کا کام شروع کیا پھر چند سال بعد کپڑے کے ہول سیل کمیشن ایجنٹ بن گئے اور ساتھ ہی اہل علاقہ کی مدد سے وہاں ایک ڈسپنسری کھول لی۔ کراچی میں فلُو کی وبا پھیلی تو عبدالستار ایدھی نے متاثرہ افراد کے علاج کے لئے گلی گلی جا کر چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا اور میڈیکل کے طالب علموں کو اس دوران رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے لئے ساتھ ملایا۔

عبدالستار ایدھی کو چونکہ ماں کی بیماری کے دوران کافی بار ہسپتال سے رجوع کرنا پڑا شائد اسی لئے ان کے اندر مریضوں کی مدد کے لئے ایک جذبہ تھا۔ لوگوں کو عبدالستار ایدھی کا کام اور ان کی اس نیک کام سے لگن نے بہت متاثر کیا تو انھوں نے بھرپور انداز میں مدد کی۔ یوں عبدالستار ایدھی نے کام جاری رکھتے ہوئے اپنا دائرہ بڑھایا۔

1965ميں عبدالستار ایدھی نے اپنے ایک میڈیکل سینٹر کی نرس بلقیس سے شادی کی۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ عبدالستار ایدھی کے پاس پیسوں کی کمی تھی نہ ہی کوئی لالچ !!! دو کپڑوں کے کھدر کے جوڑ ذاتی ملکیت تھے۔ اور ایدھی ویلج کے ساتھ ایک سادہ سا فلیٹ میں رہائش پذیر رہے۔

عبد الستار ایدھی نے ساٹھ سال انسانیت کی خدمت بغیر کسی لالچ کے کی!!! پانچ ہزار روپے سے شروع ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس جس میں 1500 سے زائد ایمبولینس گاڑیاں اور ایک ایمبولینس ہیلی کاپٹر سمیت عملہ چوبیس گھنٹے خدمت کے جذبے سے سرشار حاضر ہوتا ہے۔
پاکستان میں جہاں لوگ غربت کی وجہ سے بچے پھینک دیتے ہیں وہاں ہی ناجائز تعلقات سے جنم لینے والے بچوں کو گندگی کے ڈھیروں پر لوگ چھوڑ آتے تھے !!!! پر انسانیت کے اس "خادم” نے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے ہر سینٹر میں پنگوڑے رکھے ہیں تاکہ ایسے افراد ان بچوں کو اس میں رکھ دیں اور اس بابت ان سے کسی قسم کا سوال بھی نہیں کیا جائے گا۔ !!!!
غرض جان بچانا مقصود ہے !!!
ان بچوں کی رجسٹریشن پر ولدیت عبدالستار ایدھی اور ممتا کا پیار بلقیس ایدھی کے نام ہوتا ہے !!!
ایدھی سینٹر پر 20,000 ایسے بچوں کو بچایا گیا جن کو والدین پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ایسی جگہوں پر چھوڑ آتے تھے۔ یا پھر کہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک آتے تھے!!!
50,000 یتیم بچوں کی کفالت کی اور 40,000 سے زائد نرسیں تربیت حاصل کر چکی ہیں۔
330 سے زائد ملک بھر کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں سینٹر کام کر رہے ہیں جہاں معذور ، بے گھر، عورتیں ، بچے اور نشہ کے عادی افراد کو رکھا جاتا ہے۔
ریحاب سینٹروں میں دماغی توازن میں بگاڑ کے افراد زیر علاج رہتے ہیں۔

ایدھی فاونڈیشن نے بین الاقوامی طور پر بھی امداد کر کے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ ان میں افریقی ، مشرق وسطی، یورپ سمیت امریکہ کے 2005 میں سمندری طوفان سے متاثرہ ریاستیں شامل ہیں۔

عبد الستار ایدھی کو کئی بار بیرون ملک میں روکا اور حراساں کیا گیا جن میں 1980 میں جب وہ لبنان میں فلسطینیوں کی مدد کے لئے داخل ہو رہے تھے تو اسرائیلی فوج نے ان کو وہاں گرفتار کر لیا تھا بعد ازاں چھوڑ دیا گیا !!!!
2006 میں ٹورنٹو( کینیڈا) میں 16 گھنٹے تک روکے رکھا !!!!
29 جنوری 2008 کو امریکی امیگریشن نے 8 گھنٹے تک جے ایف کینڈی ائیرپورٹ پر روکے رکھا اور بعد ازاں پاسپورٹ اپنی تحویل میں رکھ کر چھوڑ دیا۔ 20 دن بعد پاسپورٹ واپس کیا !!!
2009 میں نیویارک کے ائیرپورٹ پر روک لیا !!!
جبکہ عبدالستار ایدھی کے سینٹر امریکہ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ہیں !!!

عبدالستار ایدھی کو ان کی لمبی داڑھی اور قمیض شلوار کی وجہ سے دوران سفر رکاوٹوں کا سامنا رہا۔
عبدالستار ایدھی کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں 1986 میں RAMON MAGSAYSAY AWARD
LENIN PEACE PRIZE
BALZAN PRIZE
سے نوازا۔
جبکہ 2006 میں INSTITUTE OF BUSINESS ADMINISTRATION PAKISTAN نے انھیں ڈاکڑ آف سوشل سروس مینجمنٹ کا اعزاز ان کی انسانی خدمات کے اعتراف میں دیا۔
جبکہ 2010 میں برطانیہ کی بریڈفوڑ یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔

نوبل پرائز کے لئے ان کا نام وزیراعظم پاکستان نے تجویز کیا جس پر ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدين یوسفزئی کی مدد سے 30,000 افراد نے بین الااقوامی طور پر دستخط بھی کر رکھے ہیں۔
موجودہ دور میں عبدالستار ایدھی کے پاس مال و متاع کی ریل پیل تھی مگر اس درویش صفت انسان نے کچھ نہیں خریدا۔ ذاتی ملکیت کھدر کے دو جوڑ !!!!

اتنا روپیہ پیسا ہونے کے باوجود وائیٹ منی کو بلیک کر کہ کسی ماڈل کے ہاتھ باہر نہیں منتقل کروایا !!!!
سوئس بینکوں میں کوئی اکاونٹ نہیں !!!!
آف شور کمپنیاں بھی نہیں، خود کی، بیوی یا بچوں کے نام سے !!!!
بیماری کی حالت میں بھی وہیل چیر پر چندہ اکٹھا کیا !!!
اپنا سارا علاج پاکستان ہی سے کروانے کو ترجیح دی !!!
لاکھوں افراد کا کفیل ! گندگی کے ڈھیر سے اٹھائے جانے والے بچوں کا "حقیقی باپ” 88 سالہ زندگی میں 8 جولائی کو پہلی بار شکست کھائی جب موت جیت گئی !!!!
ہزاروں زیر کفالت یتیم بچوں کو پھر سے یتیم کر کہ خالق حقیقی سے جا ملا۔

عبدالستار ایدھی کی موت کے بعد چند سوالات جنم لیتے ہیں !!!!

کہ
موت برحق ہے اور ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے !
جان بچانا فرض ہے تو مرحوم نے کوئی کوشش کیوں نہ کی اپنی جان بچانے کی ؟؟ کسی بیرون ملک سے اچھے ہسپتال سے علاج کروایا جائے ؟؟؟
وہ بھی اپنا ڈاکٹر دنیا کہ کسی ملک سے چن سکتے تھے تاکہ ان کا ریگولر چیک اپ ہوتا رہتا کسی اچھے معالج سے !!!
عبدالستار ایدھی مرحوم کو یہ بیماری آناً فاناً نہیں لگی !!!
2013 سے گردوں کے عارضے میں مبتلا رہے !!!
کوئی اچانک بہانہ نہیں بنا کہ ملکی ڈاکٹروں سے تشخیص ناممکن ہو چکی تھی !!!
عبدالستار ایدھی نے وہ کام پاکستان کے عوام کے لئے کیا کہ رہتی دنیا تک ان کا نام عزت سے لیا جائے گا۔ وہ ایک رضاکارانہ سی زندگی گزار کر چل بسے!!! ، سادگی میں ہی بسر کر لئے دن، جوانی دیکھی نہ ہی بڑھاپا !!!!
بس انسانیت کی خدمت کر کہ امر ہو گیا !!!
نہیں بھولیں گے ہم آپ کو ! نہیں بھولیں گے ! اے بابائے”خدمت خلق۔”بابائے قوم بھی کراچی میں مدفون اور بابائے خدمت خلق بھی کراچی میں ہی مدفون !!!

دل میں درد ہو تو دعا کرئے کوئی
دل ہی درد دل ہو تو کیا کرئےکوئی

اللہ کوئی مسیحا بھیج پاکستانی عوام کے لئے !!!

رہتی دنیا تک کروڑوں رحمتوں کا نزول ہو عبدالستار ایدھی ےآپ پر۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے