کشمیرجل کیوں رہا ہے ۔؟

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ ایک ہفتہ سے حالات کشیدہ ہیں ۔پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں بیسیوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جبکہ سینکڑوں زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئے ہیں ۔احتجاج اور جھڑپوں کی نئی لہر اس وقت شروع ہوئی جب ریاستی پولیس نے دیگر سیکیورٹی فورسز کیساتھ ملکر کمسن حریت کمانڈر برہان وانی کو دو ساتھیوں سمیت مقابلہ میں شہید کر دیا ۔ردعمل کے طور پر شروع ہونے والے احتجاج اور جھڑپوں میں ہر گزرتے دن کیساتھ کمی واقع ہو رہی ہے اور حالات ابھی تک معمول پر نہیں آئے ۔دو چار روز میں سب ٹھیک ہو جائیگا اور عوام سب کچھ بھول کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے صرف ایک حصے یعنی” وادی کشمیر “میں آزادی کی جدوجہد 1989میں شروع ہوئی۔ اس حوالے سے امان اللہ خان مرحوم نے اپنی کتاب ”جہد مسلسل “ میں وادی کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع کرنے ،جہادیوں کو فنڈز ،اسلحہ ،ٹریننگ فراہم کرنے ،بھارتی مقبوضہ کشمیر میں خود مختارکشمیر کے نظریات کو پروان چڑھانے کیلئے لٹریچر بھیجنے سمیت تمام امور پر لب کشائی کی ہے ۔”جہد مسلسل“ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب تحریک آزادی کوجو خالصتاًکشمیر ی حریت پسندوں کے ذریعے شروع کی گئی تھی اسے کس طرح ہائی جیک کیا گیا اور آخر میں لبریشن فرنٹ کے اجلاسوں میںحاضر سروس فوجی افسر بٹھانے کے معاملہ پر احتلافات بڑھے اوریوں لبریشن فرنٹ اس جدوجہد سے علیحدہ ہو کر سفارتی محاذ پر جدوجہد کرنے لگ گئی۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ وادی کشمیر میں سب سے پہلے آزادی کی جدوجہدلبریشن فرنٹ کے ذریعے شروع کرائی گئی ۔لبریشن فرنٹ لبرل نظریات کی حامی جماعت ہے مگر بعدازاں اس جدوجہد کو مذہبی تڑکا لگا کر ہائی جیک کر لیا گیا۔لبریشن فرنٹ کی اعلیٰ قیادت جوانجینئرز،ڈاکٹرز،پروفیسر ز،ٹیچرز سمیت صاحب رائے پر افراد پر مشتمل تھی کو کشمیر کے گھنے جنگلوںمیں مذہب کے نام پر ختم کر دیا گیا۔

لبریشن فرنٹ کے بطن سے حزب المجاہدین ،حرکت المجاہدین ، حرکت انصار ،البدر مجاہدین سمیت درجنوں جہادیوں تنظیموں نے جنم لیا جب ان سے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے تو پھرحافظ سعید کی قیادت میں لشکر طیبہ جو کہ اب جماعة الدعوہ کے نام سے مشہور ہے کو میدان کار ساز میں اتارا گیا۔1989سے2001تک یہ گھناونا کھیل جاری رہا ،پر اکسی وار کے اس دور میں 5لاکھ کشمیری زندگی گنوا بیٹھے۔ جب بھی نتائج سامنے آنے کی امید ہوتی تو پرانی تنظیم میں پھوٹ ڈال کر نیا ڈھانچہ سامنے لایا جاتا رہا۔لبریشن فرنٹ کی شکست وریخت سے جاری ہونے والے سلسلہ آج تک جاری ہے ۔

2001میں جب جنرل پروز مشرف نے پاکستان کی ترجیحات بدلتے ہو ئے جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کی تو کشمیر میں بھی آگ و خون کی ہولی کے شعلے کم ہوگئے ۔حکمت عملی بدل دی گئی درجن سے زائد کشمیری تنظیموں پر قتل متحدہ جہاد کونسل بنا کر پاکستان کی جہادی جماعت جماعةالدعوہ کو مبصر کی شکل میں ان کے ساتھ ملا دیا گیا۔ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر پیر زادہ محمد یوسف المعروف سید صلاح الدین اس متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ ہیں ۔جہاد کشمیر کے تمام فیصلے مری پارسے ہو تے ہیں ۔اسلحہ، ٹریننگ ،فنڈز ، لٹریچر کا وہی طریقہ رائج ہے جو لبریشن فرنٹ کیساتھ طے کیا گیا تھامگر اب کی بار تمام جہادی مٹھی میں بند ہیں۔مسلح حریت پسندوں کی گن کے ٹریکٹر پر رکھی گئی انگلی اس وقت حرکت نہیں کرتی جب تک مری پار سے احکامات جاری نہ ہوں۔

برہان وانی شہید بھی اس حزب المجاہدین سے وابستہ تھا اس کے پاس نہ تو اسلحہ اپنا تھا اور نہ ہی سوچ اپنیتھی ۔برہان وانی بھارتی فوج اور ریاستی پولیس سے بدلہ لینے انتقام کی آگ میں کود پڑا اور دشمن کے دشمن کی گود میں جا بیٹھا۔مذہبی ازم اور انتقام کی آگ نے اسے اپنی جان داو پر لگانے پر آمادہ کیا اور بالآخر 6برس بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گیا ۔برہان وانی ایک مجاہدتھاجو شہید ہو گیا مجھے اس کی شہادت پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی شہادت کو قبول فرمائے مجھے اعتراض ان لوگوں پر ہے جو برہان وانی جیسے کشمیری نوجوانوں کو گمراہ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں لبریشن فرنٹ سمیت درجنوں تنظیمیں ابھر کر سامنے آئیں اور پھر کچھ ہی عرصے بعد منظر عام سے ان کا نام و نشان مٹ گیا یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ جو لو گ انہیں اسلحہ اور تربیت فراہم کرتے تھے ان کے اپنے مقاصد ہوتے تھے جب ان کے مقاصد سے ہٹ کر کام کیا گیا تو انہیں نشان عبرت بنا کر نئے لوگوں سے کام لینا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ 1989سے آج تک بر قرار ہے ۔کشمیر ی عوام کو اب مزید دھوکے میں نہیں آنا چاہیے ۔حضرت علی کا قول ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا مگر یہاں تو بار بار اسی سوراخ میں جھانکا جا رہا ہے ۔چند لوگ اپنے مفادات کے لیے پوری کشمیری قوم کا سودا کیے جارہے ہیں۔

کشمیر میں غیر ملکی جھنڈے لہرانا بھی اس مخصوص مکتبہ کی سوچ کا نتیجہ ہے جو خود تو کشمیریوں کو آزادی فراہم نہیں کرتے مگر اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے نہتے کشمیری نوجوانوں کو خونخوار درندوں کے منہ میں ڈال رہے ہیں ۔راقم نے ایک جہادی تنظیم کے کمانڈرسے پوچھا کہ آپ سری نگر میں کارروائی کس طرح کرتے ہو تو اس نے بتایا کہ وہاں کارروائی کرنا بہت آسان ہے۔ جب حالات خراب کرنے ہوں تو کسی بھی بستی کے قریب جاکر فوج یا پولیس پر حملہ کر کے فرار ہو جاتے ہیں ردعمل میں فوج علاقہ کی ناکہ بندی کر کے گھر گھر تلاشی شروع کر دیتی ہے کچھ لوگوں کو مشکوک سمجھ کر گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔ رد عمل میں عوام بھی باہر نکل آتے ہیںپولیس اور عوام میں جھڑپیں اور پھر ایک ادھ ہلاکت کے بعد پوری وادی مکمل جام ہو جاتی ہے ۔جہادی عناصر وادی کشمیر میں یہ حکمت عملی اختیار کر کے بے گناہ کشمیری عوام کو مروا رہے ہیں۔میں عالم اسلام کے علماءسے سوال کرتا ہوں کیا یہ جہاد ہے ۔؟کشمیری عوام کو اب تو سمجھ ،عقل ،شعور آ جانا چاہیے ۔جب تک غیروں کی چال چلتے رہو گے کشمیر جلتا رہا گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے