کیا پاکستان تُرکی بن سکتا ھے ؟

ترکی میں فوجی گروہ کی ناکام بغاوت نے ہمارے ہاں قطبی طبقات میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ھے۔ ایک طبقہ وہ ھے اس بغاوت پر آزردہ و افسردہ تھا کیونکہ میڈیا پہ ابتدائی خبریں یہئ تاثر دے رھی تھیں کہ بغاوت کامیاب ھوگئی اور چین اُردوگان کی منتخب حکومت ختم کردی گئی۔ جبکہ دوسرا طبقہ وہ جس کی رالیں بہنا شروع ھوگئ تھیں اور فرطِ جذبات میں وقت سے پہلے نتائج کا اعلان کر رھے تھے۔ انہوں نے ترک فوجی بغاوت کے تناظر میں کے پاکستان میں کسی ممکنہ غیر آئینی فوجی اقدام کے جواز تراشنا اور دونوں ممالک کے کے حالات کا موازنہ شروع کردیا بلکہ وہ منتظر نظر آدھے تھے ان کی خواھش دیرینہ اب کہ رنگ لائے گی۔

موخر الذکر طبقے کی امیدوں پر اوس پڑی اور فوجی بغاوت ناکام ھوگئی تو اوّل الذکر طبقے کو خوشیاں منانے پر آڑے ہاتھوں لیا کہ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ اور پھر اپنی نیم مردہ حسرتوں میں مصنوعی تنفس پھونکنے کے لئیے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر ایک مربوط اور منظم تحریک چلائی گئی۔ ماہرینِ ایڈوب فوٹو شاپ اپنے خیال ھمہ دانی کا شکار دانشوروں اور لامحدود وسائل رکھنے والے ھمدردوں کی زیرِ نگرانی مختلف سلائیڈز ‘ کارٹونز اور فقرے عام کرنے میں مصروف ھیں۔ جن کی غرض و غائیت صرف یہ ھے کہ لوگوں کی ذہن سازی اور رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے کہ ‘ مایوس نہ ھوں ‘ بغاوت ترکی میں ناکام ھوئی ‘ آپ خاطر جمع رکھیں پاکستان ایسا نھیں ھے۔ یہاں ایسا ھوا تو لوگ لاتعلق رھیں گے۔ کبھی نواز شریف اور اُردوگان کے درمیان موازنہ ‘ کبھی ماضی کے مادشل لاؤں پر عوامی ردعمل اور کبھی اپنی اور ان کی فوج میں فرق کا بیان اور کبھی یہ کہ اگر لوگ نکلے تو مٹھائیاں لینے نکلیں گے وغیرہ۔

یہاں ایک بحث تو پہلے ھی بڑی شدو مد سے چل رھی تھی کہ مارشل لاء آرھا ھے یا نھیں ؟ اسلامآبادی بینرز کس نے اور کیوں لگوائے؟ ترکی کے حالات نے اس بحث کو ایک نئی جہت دی۔

[pullquote] اب سوال یہ ھے اگر بغاوت ھوتی ھے تو ھماری عوام ۱۹۹۹ کا ردعمل دِکھائے گی یا ۲۰۱۶ کے ترک عوام والا؟
[/pullquote]

ھمارے ہاں عسکری اداروں کی فوجی حکومتوں اور حکمتِ عملیوں نے ملک کو ھمیشہ پیچھے دھکیلا ۔ لڑنے کی صلاحیت اور ریاست و حکومت اور سفارت یکسر مختلف ھیں۔ سنار کا کام لوہار سے کروانے کے نتائج سب جانتے ھیں۔ ۱۹۵۸ کے مارشل لاء ۱۹۶۵ میں میں شملہ معاہدہ میں بدترین سفارتی شکست ‘ ۱۹۷۱ میں ملک کا دولخت ھونا ‘ سارے ملک کی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی تقسیم و کشمکش کا آغاز ‘ ۱۹۷۷کے مارشل لاء کے نتائج طالبانئزئشن کی بنیاد ‘ خطے میں عدم توازن ‘ افغانستان میں مستقل ابتری ( جس کے سب سے بڑے متاثرین ھم ھیں ) کراچی مین لسانی تقسیم اور بد آمنی’ ترقی کا رک جانا ‘ غیر ریاستی عناصر کا فروغ ‘ فرقہ واریت’ کلاشنکوف اور ھیرو ئین کلچر ‘ وغیرہ ۱۹۹۹ کے مارشل لاء کے نتائج دھماکے’ فوجی ادارے کی ساکھ کا گرنا’ غلط حکمتِ عملی کے نتیجے میں معیشت کو کھربوں کا مستقل نقصان ‘ کراچی میں لسانی گروپوں کی مزید فعالیت اور بدامنی میں اضافہ’ این آر آؤ ‘ کشمیر کاز کو ناقابلِ تلافی نقصان ‘ بجلی کا بحران ‘ بدترین خارجہ پالیسی اور ھمسایہ ممالک تعلقات کشیدہ فوج کا عوام میں عمومی تاثر انتہائی خراب۔

ایسے میں آپریشن ضربِ عزب’ کراچی آپریشن ( جنہیں فوج اور سویلین قیادت نے مشترکہ لائحہ عمل اور باھمی رضامندی سے شروع کیا) اینکرز ‘ صحافیوں اور سماجی رابطوں کی مربوط کمپین بعد بڑی مشکل سے فوج کا عمومی تاثر بہتر ھو ا ھے ۔

فوج کو خیال کرنا ھے طوطا فالی اینکر ‘ جعلی ڈاکٹر ‘ شیخ چلی اور حسرتِ اقتدار میں حواس باختہ بزرگ جوان اجتماعی قومی دانش اور نمائندہ نھیں اور نہ ھی قومی امنگوں کے اکلوتے ترجمان ھیں ۔

۱۹۹۹ میں یا یوں کہنا چاھئیے کہ ۱۹۹۹ تک ایک سرکاری ٹی وی ‘ سماجی رابطوں کی عدم موجودگی اور محدود ذرائع ابلاغ کے باعث عوامی رائے کو کنڑول کرنا آسان تھا مگر اب ایسا نھیں۔ اب سول سوسائٹی زیادہ باخبر اور متحرک ‘ آذادیِ رائے بہتر ھے۔

ماضی قریب کے واقعات کچھ اور اشارہ کر رھے ھیں۔

مشرف دور میں اپنی پوری ریاستی قوت’ وسائل اور دباو استعمال کرنے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ دونوں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ملک بدر کردیا گیا اور باوجود اس کے کہ دھونس ‘ دھاندلی اور زبردستی کی گئی اور باوجود اس کے کہ نیب کا خوف اور اقتدار کا لالچ دیا گیا’ حکومت بنانے کے لیے پی پی پی پیٹریاٹ بنانا پڑی۔

کراچی میں جاری موجودہ آپریشن اور ایم کیو ایم کے مکمل زیر ِ عتاب ھونے کہ باوجود اور رینجرز کی نگرانی میں ضمنی الیکشن ھونے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ جلسوں کی پوری چھٹی ایک جماعت کو دی گئی’ رائے عامہ تبدیل نہ ھوسکتی۔

مشرف دور میں ھی وکلاء کی تحریک کو دبانے اور خریدنے کی تمام کوششوں کے باوجود اور اسی ایم کیو ایم جو اس وقت تک فوج کی نظر مین نہ غدار تھی اور نہ دہشت گرد بلکہ ریاستی قوتوں کی معاون تھی ‘ کی وکلا کو زندہ جلا دئیے جانے کے باوجود مشرف بچ نہ سکا ۔

میں کسی حسنِ ظن یا خوش گمانی کا شکار نھیں۔ اور یہ دعوی بھی نھین کرتا کہ ایسے کسی بھی ایڈو نچر کی شکل میں ھماری قوم ترک قوم کی تقلید کرے گی یا پاکستان ترکی بن جائے گا کیوں کے ایسے کارناموں کیلئے قوم ھونا ضروری ھوتا ھے بٹا ھوا ‘ تقسیم شدہ ھجوم نھیں ۔ لیکن پھر بھی ایک بات ضرور کہوں گا اب پہلے سے حالات نھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے